عیسیٰ سے مراد جناب مرزا قادیانی ہیں اس لئے کہ یہ الہام ان پر ہورہا ہے ان کے متعلق ہے۔(معاذ اﷲ)) ’’میں تجھے کامل اجر بخشوں گا نیز فرمایا اے عیسیٰ (مرزا قادیانی) میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور اپنی طرف اٹھائوں گا۔‘‘
خدارا انصاف شرط ہے ﷲ! کوئی غور کرکے کہ اس مزعومہ الہام میں جبکہ لفظ متوفیک مرزا قادیانی کے لئے استعمال کیا گیا تو الہام ہی میں اس کے معنی ’’کامل اجر بخشوں گا۔‘‘ فرمائے گئے ’’پوری نعمت دوں گا۔‘‘ بتائے گئے اور جب یہی وحی ربانی حضرت عیسیٰ بن مریم کے متعلق قرآن حکیم میں ذکر ہوئی تومرزا قادیانی ہی کے مزعومہ الہام میں یہ معنی بتائے گئے کہ ’’وہ فوت ہوچکا ہے۔‘‘ وہی لفظ جب مرزا قادیانی کے لئے الہام میں بولا گیا تو الہام کرنے والے نے اور معنی بتائے وہی لفظ بالکل اسی شان سے اسی عبارت میں جب عیسیٰ علیہ السلام کے لئے آیا تو الہام کرنے والا دوسرے معنی بتائے۔ یا تو یہ مرزا قادیانی پر الہام کرنے والا دروغ گورا حافظہ نباشد کا مصداق ہے۔ یا الہام کا مدعی ہی مفتری وکذاب۔
سچے خدا کا الہام ہمیشہ سچا
اس شکل کو دیکھتے ہوئے ہمیں یقین ہے کہ مرزائی صاحبان اپنی آئندہ تحریروں میں ’’توفیٰ‘‘ کے معنی کے متعلق جہاں اور شرطیں لکھتے رہے اب اس شرط کا اضافہ کردیں گے اور یہ لکھیں گے کہ ’’توفی باب تفعل سے ہونا فاعل اﷲ ہو مفعول بہ خاص حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن مریم مسیح ناصری علیہ السلام ہوں تو اس کے معنی موت ہی کے ہوں گے۔‘‘ ورنہ اگر وہ یہ شرط نہ لگائیں گے تو ان کے چیلنج کے جواب میں مرزا قادیانی کے مزعومہ الہام (براہین احمدیہ ص۵۱۹، ۵۵۷، خزائن ج۱ ص۶۱۹،۶۶۴) کو پیش کردیا جائے گا۔ اس لئے کہ مرزا قادیانی کو بھی تو اعجازی کلام کا دعویٰ ہے ہی اور اس کے معنی چونکہ وہیں (بہ زعم مرزا قادیانی) الہام ہی میں بیان کردئیے گئے ہیں۔ لہٰذا مرزائیوں کو ان کے ماننے میں انکار بھی نہ ہوگا۔
۲… حافظ جی نے اپنی اس عبارت میں یہ بھی مان لیا کہ ’’حیات مسیح مسلمانوں کا رسمی عقیدہ تھا۔ اسی لئے مرزا قادیانی اسے تسلیم کرتے رہے۔‘‘
پس جب حافظ جی کو یہ تسلیم ہے کہ حیات مسیح تمام مسلمانوں کا عقیدہ تھا تو اس میں بھی انہیں تأمل نہ ہوگا کہ اس کے بعد (مزعومہ الہام ہی کے ذریعہ سہی) جو عقیدہ ممات مسیح کا سکھایا وہ اس عقیدہ کیخلاف ایک نیا طریقہ تھا۔اب ہم حدیث شریف میں دیکھتے ہیں کہ پرانے طریقے کیخلاف نیا طریقہ بتانے والے کون ہوتے ہیں اور ہمیں ان کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے۔