جواب… یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو خاتم النّبیین بنایا اور آپ کے طفیل اس امت کو ’’خیر الامم‘‘ کا عالی مرتبت خطاب عطا فرمایا تو ساتھ ہی علمائے امت کو تبلیغ اسلام کا کام سپرد فرمایا چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: ’’ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر ویامرون بالمعروف وینہون عن المنکر (آل عمران:۱۰۴)‘‘ {اور چاہئے کہ تم میں سے ایک گروہ ہو جو بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں۔} چونکہ یہ منصب جلیلہ بڑا ممتاز ہے اس لئے حضورﷺ نے علماء امت کو انبیاء کے وارث فرمایا ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے: ’’ان العلماء ورثۃ الانبیائ‘‘ اور دوسری جگہ علماء کو بنی اسرائیل کے نبیوں کا مثیل قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے کہ : ’’علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل‘‘ یعنی میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں۔
پس جہاں یہ ثابت ہوا کہ ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ کا کام علماء امت کے سپرد ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورﷺ کے بعد اب کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ مفوضہ کام علمائے امت بتوفیق ایزدی بخوبی انجام دیتے رہے، دے رہے ہیں اور دیتے جائیں گے۔ چنانچہ حضورﷺ نے فرمایا ہے: ’’ولا تزال طائفۃ من امتی علی الحق ظاہرین لا یضرہم من خالفہم حتیٰ یاتی امر اﷲ‘‘ {اور ہمیشہ ایک جماعت میری امت میں سے ثابت رہے گی حق پر اور غالب۔ نہیں ضرر پہنچا سکے گا ان کو وہ شخص کہ مخالفت کرے ان کی، یہاں تک کہ آئے حکم خدا۔} (مشکوٰۃ مترجم ج ۴ ص۸۱ )
پس دوسری حدیث شریف میں یہ ہے کہ: ’’ولاتزال طائفۃ من امتی یقاتلون علیٰ الحق ظاہرین الیٰ یوم القیامۃ‘‘ اور ہمیشہ رہے گی ایک جماعت میری امت میں سے لڑے گی حق پر دراں حالیکہ غالب ہوگی قیامت تک۔ (مشکوٰۃ مترجم ج۴ ص۱۲۸)
پس حسب فرمان مصطفوی علمائے اہل سنت والجماعت کا گروہ حق پر ہے جو باطل کے مقابلہ پر ہمیشہ غالب رہا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک غالب رہے گا۔
شبہ در شبہ نمبر۲
ممکن ہے مندرجہ بالا جواب کو پڑھ کر یہ شبہ پیش کردے کہ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام علمائے اسلام کے سپرد ہے اور آنحضرتﷺ کے بعد کسی نئے نبی کی ضرورت نہیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ تشریف لانا کس غرض سے ہے؟