کیا۔ پھر نکلا اور نداء کی کہ کون دوپہر سے عصر تک میرا کام ایک ایک قیراط کے معاوضہ میں کرے گا۔ تو عیسائیوں نے عصر تک کام کیا مگر ایک ایک قیراط لے کر پھر نکلا اور صدا اٹھائی کہ کون میرا کام عصر سے مغرب تک کرے اور اجر دو دو قیراط پاوے سن رکھو تم وہ امت ہو جن کا وقت مزدور ی عصر سے مغرب تک ہے مگر تمہیں دو دو قیراط ملیں گے یعنی دوہرے اجر کے تم مستحق ہو۔ تب یہودونصاریٰ رنج میں آئے اور مالک سے کہا کہ ہم نے محنت پر زیادہ عرصہ صرف کیا اور اجرت ہمیں کم ملی تو مالک نے کہا کہ جو محنتا نہ تم سے ٹھہرایا تھا اس سے کم تمہیں نہیں دیا۔ ایک کو اگر میں نے اپنے مال سے زیادہ دیا تو یہ میری مرضی میں اپنے مال کا مختار ہوں میرا فضل ہے جس کو چاہوں میں عطا کروں۔}
دوسری حدیث مطابق مضمون انجیل
اس طرح پچھلے پہلے ہوجائیں گے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ سے مرفوعاً بخاری اور مسلم نے امت محمدی کی شان میں نقل کیا ہے: ’’نحن الاٰخرون السابقون یوم القیامۃ بیدانہم اوتوا الکتاب من قبلنا واوتیناہ من بعدہم‘‘ یعنی ہم پچھلے ہیں دنیا میں اور پہلے ہوں گے دن قیامت کے ۔ ہاں یہ بات اور ہے کہ انہیں ہم سے پہلے کتاب عطاء ہوئی اور ہم کو بعد میں عنایت ہوئی اور مسلم کی دوسری روایت میں ہے: ’’نحن الاٰخرون الاولون یوم القیامۃ ونحن اوّل من یدخل الجنۃ‘‘ یعنی ہم دنیا میں آخر اور روز قیامت اول ہوں گے۔ سب سے اوّل ہم ہی بہشت میں جائیں گے اور تیسری روایت میں حضرت حذیفہ سے اس طرح ثابت ہے: ’’نحن الآخرون من اہل الدنیا والاولون یوم القیامۃ المقضی لہم قبل الاخلائق‘‘ ہم اہل دنیا میں سب سے اخیر میں اور عقبی میں سب سے مقدم ہوں گے۔ ہمارا فیصلہ سب خلق اللہ سے اول ہوگا اور دارمی نے اس روایت کو عمروبن قیس سے بیان کیا ہے۔ حدیث کا منشاء بالکل انجیل کے بیان کے مطابق ہے جہاں کچھ معمولی اختلاف ہے وہ ان کتابوں کی تحریف کا اثر ہے۔
مرزا قادیانی کا خود ازالہ میں یہ قول ہے کہ نبوت کا اختتام ہوچکا ہے
’’اور نیز خاتم النّبیین ہونا ہمارے نبیﷺ کا کسی دوسرے نبی کے آنے سے مانع ہے۔ ظاہر ہے کہ اگرچہ ایک ہی دفعہ و حی کا نزول فرض کیا جائے اور صرف ایک ہی فقرہ حضرت جبرئیل لائیں اور پھر چپ ہوجائیں یہ امر بھی ختم نبو ت کا منافی ہے کیونکہ جب ختمیت کی مہر ٹوٹ گئی