ہے کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پہل لائے دی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ یہود کو اپنے خاندان سے نبوت کا سلب ہونا اور اسماعیل کے خاندان میں منتقل ہونا برا معلوم ہوا اور وہ غیرت اور حسد کی نگاہیں بھربھر کر دیکھتے تھے ارشاد خداوندی ہے۔ ’’ام یحسدون الناس علی ما اتاہم اﷲ من فضلہ فقد اٰتینا اٰل ابراہیم الکتاب والحکمۃ واٰتیناہم ملکا عظیما‘‘
اور آج کا دن وہ دن ہے جو کتاب استثناء باب ۳۲ کی بشارت ظہور میں آئی اس لئے کہ اس کے بیٹوں اور اس کی بیٹیوں نے اسے غصہ دلایا اور اس نے فرمایا کہ میں ان سے اپنا منہ چھپائوں گا۔ تاکہ میں دیکھوں کہ ان کا انجام کیا ہوگا۔ اس لئے کہ وہ کج نسل ہیں ایسے لڑکے جن میں امانت نہیں۔ انہوں نے اس کے سبب سے جو خدا نے مجھے غیرت دلائی اور اپنی واہیات باتوں سے مجھے غصہ دلایا سومیں بھی انہیں اس سے جو گروہ نہیں غیرت میں ڈالوں گا اور ایک بے عقل قوم سے انہیں خفا کروں گا۔
بے عقل قوم سے عرب کی امی قوم مراد ہے جیسے قرآنی ارشاد ہے: ’’ہو الذی بعث فی الامیین رسولا منہم یتلوا علیہم اٰیاتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین‘‘
عیسائیوں کا دعویٰ اور اس کا ابطال
یہ بشارت جس کا حوالہ انجیل متی میں دیا گیا ہے۔ کتاب یسعیاہ باب ۲۸ سے ماخوذ ہے اور حضور کو آخر الانبیاء ثابت کرتی ہے۔ عیسائی مدعی ہیں کہ یہ پیش گوئی حضر ت مسیح کی ذات پر منطبق ہے۔ لیکن بشارت کے الفاظ اس کا انکار کرتے ہیں۔ حضرت مسیح خاندان بنی اسرائیل میں سے تھے۔ ان کو نبوت کا عطا ہونا کوئی عجیب بات نہیں کیونکہ اس خاندان میں سلسلہ نبوت جاری تھا اور پیش گوئی میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں کہ بادشاہت تم سے لے لی جائے گی۔ اور دوسری قوم کو دی جائے گی حضرت مسیح کسی غیر قوم میں سے نہ تھے بلکہ آپ کا سلسلہ نسب بنی اسرائیل سے منسلک ہے اور نیز بشارت کے آخری الفاظ کا مفہوم حضرت مسیح کی ذات میں پایا نہیں جاتا کہ جو اس پتھر پر گرے گا اس کی ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے۔ مگر جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا کیونکہ حضرت مسیح نے میدان جنگ میں قدم نہیں رکھا اور نہ کسی مخالف قوم پر حملہ کیا ہے اور بخیال عیسائیوں کے یہود نے انہیں گرفتار کرکے صلیب پر لٹکا کر قتل کردیا جو بالکل الفاظ مندرجہ کے متضاد ہے۔ اس لئے نہ تو پہلی جزو کا ظہور آپ کی ذات میں ہے کہ جو اس پتھر پر گرے گا۔ چکنا چور