’’میں صاف اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مرزا قادیانی کے اس جہان فانی سے بحیات مولوی ثناء اﷲ صاحب رحلت فرمانے سے مرزا قادیانی کی دعا مندرجہ اشتہار خدائے تعالیٰ نے قبول فرمائی اور اس قبولیت کا اظہار خود مرزا قادیانی نے اپنی زبان مبارک سے کیا۔
۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ء والا اشتہار بحکم خداوندی مرزا قادیانی نے دیا تھا۔ خدا نے الہامی طور پر جواب دیا تھا کہ میں نے تمہاری یہ دعا قبول کرلی۔‘‘
(بلفظہ دستخط سردار بچن سنگھ بی۔ اے پلیڈر ۲۱؍اپریل ۱۹۱۲ئ)
سردار بچن سنگھ کے فیصلہ کے مطابق ہی نہیں ایسے خدائی فیصلہ کی رو سے جس کو سارے عالم نے دیکھ لیا ہم بھی اس کی بڑے زور سے تائید کرتے ہیں مرزا جی کی اور دعائیں قبول ہوئیں یا نہ ہوئیں مگر یقینا خدا نے مرزا قادیانی کی یہ دعا ضرور قبول کی اور دنیا کو دکھا دیا کہ اس مقابلے میں حق پر کون تھا اور باطل پر کون۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ مرزا قادیانی ہیضہ میں مبتلا ہوئے، لاہور میں مر گئے، قادیان میں دفن ہوئے اور مولوی ثناء اﷲ قلعہ مرزائیت پر گولہ باری کے لئے اب تک موجود۔
ڈاکٹر عبدالحکیم اور مرزا قادیانی
حافظ جی ہماری شکایت کرتے ہیں کہ: ’’ڈاکٹر عبدالحکیم کی پیش گوئی کی طرف اشارہ کیا اور حقیقت کو بے نقاب نہیں کیا۔‘‘ ہمیں افسوس ہے کہ وہ ہمارے بلانے کے باوجود بھی دیوار کے پیچھے ہی رہے اگر سامنے آجاتے تو ہم ’’بے نقاب‘‘ بھی کردیتے۔
ناظرین نے حافظ جی کی نمبر۳ دو ورقی میں دیکھا کہ جتنے دعوے بھی انہوں نے کئے ثبوت کسی ایک کا بھی نہیں دیا۔
۱… کیا مرزا قادیانی کے وہ الفاظ وصیت نامہ لکھے جن میں انہوں نے یہ تحریر فرمایا کہ وہ فلاں تاریخ سے تین برس کے اندر مر جائیں گے۔
۲… یہ حوالہ دیا کہ ڈاکٹر صاحب نے کب اور کن الفاظ میں اپنی سابقہ پیش گوئی میں ترمیم کی؟ اب حافظ جی کی یہ تمنا ہے کہ ہم ہی ان کا نقاب اٹھائیں تو یہ لیجئے ناظرین ملاحظہ کریں کہ نقاب کے اندر کیا ہے؟
پہلے یہ معلوم کیجئے کہ مرزا قادیانی اپنی عمر کے متعلق خود ہی کیا ارشاد فرماتے ہیں: ’’میری عمر کے چالیس برس پورے ہونے پر صدی کا سر بھی آپہنچا۔ (تریاق القلوب ص۶۸، خزائن ج۵ ص۲۸۳)‘‘ (یعنی ۱۳۰۰ھ میں مرزا قادیانی کی عمر چالیس برس کی ہوئی)
(تریاق القلوب ص۱۳، خزائن ج۱۵ ص۱۵۲ حاشیہ) پر فرماتے ہیں کہ خدا نے ان پر الہام