خلاصہ یہ ہے کہ صورت کے بدلنے سے اصول بگڑتا ہے۔ تو یہ صحیح نہیں ۔اس امر میں جو طریق بہت متکلمین کا مختار ہے یہ ہے کہ یہودیوں نے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو اﷲ تعالیٰ نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔ سرداران یہود کو عوام میں فتنہ پیدا ہونے کاخوف ہوا ۔اس لئے ایک آدمی کو پکڑ کر قتل کیا اورسولی دے دی اورلوگوں پر ظاہر کردیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دے دی ہے۔ لوگ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے چہرہ شناس نہ تھے۔ صرف نام ان کا سنتے تھے۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام لوگوں سے میل جول کم رکھتے تھے۔اس لئے ان کو یقین آگیا اورنصاریٰ کی طرف سے اگر اس بات کا دعویٰ پیش ہوکہ ہم کو اپنے بزرگوں سے تواتر کے ساتھ معلوم ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بالضرور مصلوب ہوئے تو یہ خبر متواتر ان کی اس لئے نامعتبر ہے کہ اس کا تواتر تھوڑے سے آدمیوں پر منتہی ہوتا ہے۔ جن کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ عجب نہیں ۔انہوں نے کذب پراتفاق کرلیاہو۔ نتیجہ یہ نکلاکہ ’’شبہ لھم‘‘ سے یہ مراد نہیں کہ کسی اورشخص کی صورت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سی ہوگئی۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ شبہ ڈالا گیا ان کے لئے۔ وہ شبہ یہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر چڑھا لئے گئے توسرداران یہود نے دانستہ طور سے ایک غیر آدمی کو عوام کے دھوکا دہی کی غرض سے سولی دے دی۔ تیسری بات یعنی رفع جسمانی کے ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اگر یہ مراد نہ لی جائے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا ہے تو غور کرنا چاہئے کہ نہ صرف روح قتل ہوتی ہے نہ محض جسم بلکہ دونوں مقتول ہوتے ہیں اوراس کے بعد فرمایا کہ نہ ان کو صلیب دی ہے اورصلیب بھی روح مع الجسم کو دی جاتی ہے۔ نہ دونوں میںسے ایک ایک کو۔بعد اس کے فرمایا:’’ وماقتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘یہاں بھی قتل کا محتاج روح وجسم کا مجموعہ ہے ان میں سے ہر ایک تنہا اورضمائر ماقتلوہ وماصلبوہ بل رفع اﷲ کا مرجع ایک ہے۔ پس ازروئے علم وانصاف ماننا پڑے گا مسیح علیہ السلام کویہودیوں کے قتل کرنے اورصلیب دینے سے بچاکرآسمان پراٹھالیا۔ فصاحت وبلاغت اور قواعد عربی اس بات کے تسلیم کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ کیونکہ کلمہ بل کے اول میں جو کلام متضاد ہوتا ہے ۔وہ تحقق میں کبھی جمع نہیں ہوسکتا۔
مرزائیوں کی تیسری دلیل جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں
’’اذقال اﷲ یٰعسیی ابن مریم أانت قلت للناس اتخذونی وامیّٰ