ہوئے مجھے سوال کیا گیا کہ اس کے رفع کے لئے بدرگاہ رب العزت دعا وابتہال سے کام لیا جائے یا نہیں میں نے جواب میں لکھا کہ صریحاً میری نظر سے صورت مستفسرہ کا حل نہیں گزرا۔ لیکن شمنی نے کتاب غائت کی طرف منسوب کرکے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ مسلمانوں پر جب کوئی حادثہ نازل ہو تو امام نماز فجر میں دعا قنوت پڑھی۔ امام سفیان ثوریٰ اور امام احمد اس قول کے قائل ہیں اور جمہور اہلحدیث کا قول ہے کہ تمام نمازوں میں دعا قنوت کا پڑھنا مشروع ہے جبکہ کوئی آفت نازل ہو اور علامہ ابن الہمام نے فتح القدیر میں لکھا ہے کہ عند النازلۃ دعا قنوت کا پڑھنا ایک عمل مستمر اور جاری ہے جو منسوخ نہیں اور اہل حدیث نے حدیث انس کا بھی مطلب بیان کیا ہے کہ آں حضرت ہر حادثہ کے وقت دعا قنوت پڑھا کرتے تھے۔}
اسی عموم کے ماتحت طاعون کے مرفع کے لئے دعا کرنا مندرج ہے لہٰذا کوئی مضائقہ نہیں کہ اگر دفعیہ طاعون کے لئے دعا وتضرع کی جائے ومجالس الابرار میں یہ مسئلہ مکمل طور پر مندرج ہے۔
آنحضرتﷺ کا ارشاد کہ اس امت پر عذاب نازل ہوں گے
لیکن عذاب بیخ کن نازل نہیں ہوگا
ضمن دوم… آنحضرتﷺ نے اپنی امت میں عذاب نازل ہونے کی خبر سنائی ہے لیکن یہ بھی ساتھ فرمایا ہے کہ سابقہ امتوں کی طرح کلیۃ استیصال کردینے والا عذاب نہیں آئے گا۔ حضرت ثوبانؓ نے حضور سرور کائناتﷺ سے نقل کیا ہے۔
’’ان اﷲ زوی لی الارض فرایت مشارقہا ومغاربہا وان امتی سیبلغ ملکہا ما زوی لی منہا واعطیت الکنزین الاحمر ولا بیض وانی سالت ربی لامتی ان لا یہلکہا بسنۃ عامۃ وان لا یسلط علیہم عدوا من سوی انفسہم فیستبیح بیغتہم ولو اجتمع علیہم من باقطار ہاوان ربی قال یا محمد انی اذا قضیت قضاء فانہ لایردوانی اعطیتک لا متک ان لا اہلکہم بسنۃ عامہ وان لا اسلط علیہم عدوا من سویٰ انفسہم فیستبیح بیضتہم ولو اجتمع علیہم من باقطارہا حتیٰ یکون بعضہم یہلک بعضا ولیسبیی بعضہم بعضا رواہ مسلم‘‘
{خدائے تعالیٰ نے روئے زمین کو میرے لئے سمیٹ دیا۔ میں نے مشرق سے مغرب تک نظر دوڑائی میری امت کی سلطنت انہیں حدود تک پہنچے گی جہاں تک کہ وہ میرے لئے