خفیف سا نقطہ بھی باقی ہوتا تو غالباً وہ اس کے بعد پبلک کو عمر بھر منہ نہ دکھاتا۔
جناب حافظ جی صاحب شاید ہی غور فرمائیں کہ نمبر۲ دو ورقی کے ص۴ کالم۲ سطر۱۹ کی لعنت کس پر پڑی، اور ابدالا باد تک کس پر پڑتی رہے گی؟
ناظرین نے مرزا قادیانی کے مریم وعیسیٰ بننے کا حال تو معائنہ فرمایا اسی پر ان کے آدم ونوح وغیرہ بننے کو قیاس کیا جاسکتا ہے، ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ حافظ جی یہ کہتے ہوئے اس امر کا ذرا بھی خیال نہ آیا کہ ان کی تحریر کسی اہل علم کے سامنے بھی جائے گی۔
آئینہ کی مثال دے کر بروز وظہور کے مسئلہ کی تشریح کرتے ہوئے بڑے خوش ہوں گے کہ ہم نے سادہ لوح افراد کی دھوکہ دہی کے لئے کافی سامان بہم پہنچا دیا لیکن آنکھوں والے دیکھتے ہیں کہ وہ جو حسب فرمان مخبر صادقﷺ شان انبیاء کے آئینہ صفت مظہر بنے جن کے لئے حدیث میں فرمایا گیا کہ: ’’من اراد ان ینظر الی آدم علیہ السلام وصفوتہ والی یوسف علیہ السلام وحسنہ والیٰ موسیٰ علیہ السلام وصلابتہ والیٰ عیسیٰ علیہ السلام وزہدہ و الیٰ محمدﷺ وخلقہ فلینظر الیٰ علی بن ابی طالبؓ (سیر الاقطاب ص۵) ‘‘ جو کوئی یہ چاہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی صفوت حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کا حسن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی صلابت حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کا زہد حضرت محمدﷺ اور ان کا خلق معائنہ کرے پس اسے چاہئے کہ علی بن ابی طالبؓ کی طرف دیکھے باوجود اس شان مظہر کے سنئے کہ کس صفائی کے ساتھ وہی شیر خدا علی مرتضیٰؓ فرما رہے ہیں: ’’الا وانی لست نبیاً ولا یوحیٰ الی‘‘ خبردار رہنا میں نبی نہیں ہوں نہ میری طرف وحی کی جاتی ہے۔
تعجب اس پر ہے جس کا مظہر ہونا تو کجا مسلمان ہونے پر بھی کوئی دلیل شرعی نہ قائم ہوتی ہو اور یہ دعویٰ کرے کہ ’’میں نبی ہوں، میں رسول ہوں، میں سب نبیوں سے افضل ہوں۔‘‘ (العیاذ باﷲ) پھر اجتماع ضدین سونے پر سہاگہ کہ ایک طرف نبی ورسول ہونے کا دعویٰ دوسری طرف کرشن جی کا اوتار لینے کا ادعا۔
بہ بین تفاوت راہ از کجاست تا بکجا
سری کرشن جی اور ان کے روپ
اہل نظر پر مخفی نہیں کہ سری کرشن جی صاحب ہندو جاتی کے ایک بہت بڑے رہبر مانے جاتے ہیں کسی قدیم تاریخی آدم کے حالات معلوم کرنے کے لئے سمجھدار مفتشین علوم ہمیشہ پرانے اصلی نسخوں کی تلاش کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ سری کرشن جی کے حالات معلوم کرنے کے لئے بھی