طاعون اور قادیان
جناب حافظ صاحب کی دیدہ دلیری ملاحظہ کیجئے کہ کس جرأت کے ساتھ ہم پر غلط بیانی کا الزام لگاتے اور دنیا کی آنکھوں میں کس طرح خاک ڈالنا چاہتے ہیں۔
حافظ جی لکھتے ہیں کہ ’’مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ قادیان میں طاعون نہ آئے گی یہ مولوی صاحب کی بالکل غلط بیانی ہے۔‘‘
ناظرین فیصلہ کریں کہ ہم نے جو کچھ کہا تھا اس کی تفصیل یہ ہے یا نہیں؟
۱… مرزا قادیانی نے مواہب الرحمن میں فرمایا: لنا من الطاعون امان(مواہب الرحمن ص۲۴، خزائن ج۱۹ ص۲۴۲) ہم لوگوں کے لئے طاعون سے امان ہے۔ ’’لنا‘‘ کے مصداق چونکہ دنیا بھر کے مرزائی تھے جب مختلف مقامات سے مرزائیوں کے مرنے کی خبریں آنے لگیں اور معترضین نے اعتراض کیا ہوگا تو فرمایا۔ ’’خدا نے سبقت کرکے قادیان کا نام لے دیا ہے کہ قادیان کو اس (طاعون) کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا کیونکہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے اور یہ تمام امتوں کے لئے نشان ہے۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۰، خزائن ج۱۸ ص۲۳۰)
قادیان چھوٹا سا قصبہ اس کی مختصر سی آبادی مگر جب اس میں بھی یہ حالت ہوئی کہ پیسہ اخبار لاہور مورخہ ۲۰؍اپریل ۱۹۰۴ء رقمطراز ہے۔ ’’قادیان آج کل پنجاب میں اول نمبر پر طاعون میں مبتلا ہے۔ بیس (۲۰) موتوں کا اوسط ہے۔ قصبہ میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔‘‘ (ناظرین مرزا قادیانی کی مزعومہ الہامی الفاظ خوفناک تباہی کا اس عبارت پیسہ اخبار میں خاص لحاظ رکھیں نیز حافظ جی کے الفاظ بھی یاد رہیں کہ ’’جو لوگوں کو بدحواس کردے۔‘‘ اس لئے کہ اس کی تفصیل ہلچل کے لفظ میں موجود ہے) پھر جب قادیان میں اس قدر طاعون پھیلا کہ ۳۱۳۔ اموات کی رپورٹ عام اخباروں میں شائع ہوئی تو مرزاجی کو خود تسلیم کرنا پڑا۔ چنانچہ لکھتے ہیں: الحکم قادیان ۱۰؍اپریل ۱۹۰۷ئ۔ ’’آج کل طاعون بہت بڑھتا جاتا ہے چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے۔ (اس آگ لگنے پر خاص توجہ رہے بد حواسی شاید کسی اور چیز کا نام ہوگا۔) میں اپنی جماعت کے لئے خدا سے بہت دعا کرتا ہوں کہ وہ اس کو بچائے رکھے۔‘‘ مگر دعا قبول نہیں ہوتی۔
مانگا کریں گے اب سے دعا ہجریار کی
آخر تو دشمنی ہے اثر کو دعا کے ساتھ
مگر قرآن شریف سے ثابت ہے کہ جب قہر الٰہی نازل ہوتا ہے تو بدوں کے ساتھ نیک بھی لپیٹے جاتے ہیں۔