معتقد ہوگئے۔یہ عقیدہ تو بلادشام کے آدمیوں میں تھا:’’مادمت فیھم ‘‘اور’’فلما توفیتنی‘‘بالکل باہم متصل ہیں۔ پس جب حضرت مسیح علیہ السلام ان میں تھے۔وہ زمانہ صلیب کے واقعہ کا تھا۔اس کے بعد مسیح علیہ السلام ان میں سے چلے آئے ۔ پس یا تو موت کو صلیب کے ساتھ ہی مانناپڑے گا یا:’’توفیتنی‘‘ کے معنی موت کے نہ لئے جائیں گے۔
فرقہ مرزائیہ کی چوتھی دلیل کہ تو فی موت کے معنی میں ہے
مرزائی اپنے زعم باطل کے لئے احادیث ولغات سے استدلال کرتے ہیں۔ چنانچہ ابن سعدؓ سے مروی ہے:’’ماتوفی اﷲ نبیا الادفن حیث یقبض روحہ‘‘یعنی انبیاء جس مقام پر مرتے ہیں ، وہیں دفن ہوتے ہیں۔‘‘ اورابن عباسؓ سے مروی ہے :’’ان النبیﷺ بکی وبکی اصحابہ حین توفی سعد بن معاذ‘‘یعنی سعد بن معاذؓ جب مرے تو حضرتؐ اورآپؐ کے اصحاب روئے۔
الجواب … مرزائیوں کی چوتھی دلیل کا جواب
جواب اس کا یہ ہے کہ ’’توفی‘‘ جب موت کے معنی میں آتا ہے ۔تو اس کے ساتھ قرینہ معنی موت کے لئے موجود ہوتا ہے۔ جیسا کہ احادیث مستدلہ مرزائیہ میں بعد لفظ ’’توفی‘‘ کے لفظ ’’دفن ‘‘ اور لفظ ’’بکیٰ‘‘ کا قرینہ موجو دہے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں جہاں جہاں یہ لفظ آیا ہے ۔ وہاں کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں ہے۔اس لئے حقیقی معنی لینا ضرور ہے۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح مع الجسد کے اٹھائے گئے اوروفات نہیں پائی۔ اگر’’توفی‘‘ بمعنی اخذالشی بالتمام کے ہو۔جیسا کہ بہت سے مفسرین اس طرف گئے ہیں اوراس بناء پر ’’توفی‘‘ عین مفہوم رفع عیسیٰ مع الجسد والروح ہوگا۔ تب توظاہر ہے کہ کوئی اشکال نہیں اوراگر بمعنی وفات ہی لیا جائے تو ممکن ہے کہ قبل رفع تھوڑی دیر کے لئے آپ کو وفات دی گئی ہو اورپھر زندہ کرکے آسمان پراٹھا لئے گئے ہوں۔جیسا کہ بعض سلف اس کے بھی قائل ہوئے ہیں۔ چنانچہ: ’’الثانی متوفیک ای ممیتک وھومروی عن ابن عباس ومحمد بن اسحٰق قالوا والمقصود ان لایصل اعداء ہ من الیھود الی قتلہ ثم انہ بعد ذلک اکرمہ بان رفعہ الی السماء ثم اختلفو اعلیٰ ثلثۃ اوجہ احد ھاقال وھب توفی ثلث ساعات ثم رفع ،ثاینھاقال محمد بن اسحاق توفی سبع ساعات ثم احیاہ اﷲ تعالیٰ ورفعہ الثالث قال الربیع بن انس انہ تعالیٰ توفاہ حین رفعہ الی السمائ‘‘بہر حال ممیتک کے ساتھ تفسیر کرنا بھی کسی طرح منکر رفع کو مفید نہیں اورنہ رفع جسمانی کے منافی ہے۔