جائے۔ روسیاہ کیا جائے، اب مجھ کو بچالینا اﷲ تعالیٰ کا کام ہے۔ (اﷲ نے نہ بچایا لہٰذا آپ کیا بنے؟) اگر میں اس کا ہوں گا تو ضرور بچالے گا۔ (اس نے نہ بچایا ثابت ہوا کہ اس کے نہ تھے) (آگے چل کر ایک طویل عبارت لکھتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ) آپ اپنی بیوی سے کہئے کہ وہ اپنے بھائی کو مجبور کریں، ان کو چھوڑ دینے کی تنبیہ کریں تاکہ وہ بہن کے دبائو سے مجبور ہوکر محمدی بیگم کا نکاح مرزا قادیانی سے کر دیں اواگر آپ کی بیوی ایسا نہ کرے گی تو میں اپنے بیٹے فضل احمد سے کہوں گا کہ اپنی بیوی (یعنی) آپ کی لڑکی کو طلاق دے اگر اس نے میرا کہنا نہ مانا تو میں اسے عاق کردوں گا اور وراثت سے محروم کر دوں گا۔ (ملخص مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۲۱)
(ناظرین انصاف کریں کیا مجدد ومسیح ونبی کی یہی شان ہوتی ہے؟) ان ہر دو خطوط کے اقتباس نے اگرچہ بہت سی باتوں کو واضح کردیامگر ہم سر دست ان امور ہی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
۱… مرزا احمد بیگ مسلمان تھے اچھے آدمی تھے، مرزا قادیانی کا دل ان کی طرف سے صاف تھا بلکہ ان سے بے حد محبت تھی۔ لہٰذا ان کی موت کسی جرم کے سبب سے نہیں ہوئی۔ وہ مسلمان تھے اسلام پر مرے ہاں جرم صرف اس قدر تھا کہ جوان بیٹی بوڑھے بے دین مرزا قادیانی کو کیوں نہ دی۔
۲… نکاح کی تحریک صرف الہام کے سبب کی گئی ہے ۔ نکاح ضرور ہوگا۔ اس لئے کہ پادریوں اور ہندوئوں کے لئے نشان ہے اگر دوسری جگہ ہوگا تو تنبیہیں ہوں گی اور آخر مرزا قادیانی ہی سے ہوگا۔
۳… اگر نکاح نہ ہوگا تو مرزا قادیانی خوار ذلیل روسیاہ ہوجائیں گے۔
بقول مرزا قادیانی نکاح نشان مسیح آخر الزمان ہے اور وہ ظاہر نہ ہوا
اور آگے چلئے اور دیکھئے کہ مرزا قادیانی اس نکاح کو مسیح موعود کا نشان بتاتے ہیں۔ محمدی بیگم کے خاندان والوں کی اصلاح سے اس کا کو کوئی تعلق نہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان کا ذکر کرتے ہوئے کہ مسیح بن مریم دنیا میں اتریں گے شادی کریں گے…الخ!۔ جناب مرزا قادیانی فرماتے ہیں۔
’’تزوج سے مراد خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا، جس کی نسبت اس عاجز کی پیش گوئی موجود ہے گویا اس جگہ رسول اﷲﷺ ان سیاہ دل منکروں کو ان کے شبہات کا جواب دے رہے اور فرما رہے ہیں کہ یہ باتیں ضرور پوری ہوں گی۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷)