پھر صفحہ ۵۴ پر فرماتے ہیں کہ ’’براہین احمدیہ میں بھی اس پیش گوئی کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔تیسری زوجہ جس کا انتظار ہے، یہ ایک چھپی ہوئی پیش گوئی ہے جس کا سر اس وقت کھولا گیا۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۴، خزائن ج۱۱ ص۳۳۸)
اب بھی کیا اس کے ثبوت میں کوئی کسر رہ گئی کہ اس نکاح کو مرزا قادیانی مسیح موعود کا نشان بتا رہے ہیں۔ پس بقول مرزا قادیانی اگر یہ نشان ظاہر نہ ہو نکاح نہ ہو تو وہ مسیح موعود نہیں۔ بقول مرزا قادیانی نکاح تقدیر الٰہی ہے جو ٹل نہیں سکتی وہ ٹل گئی لہٰذا تقدیر نہ تھی۔ جناب مرزا قادیانی نے متعدد مقامات پر اس مضمون کو ظاہر فرمایا کہ یہ نکاح ہونا خدا کا ایسا وعدہ ہے جو ٹل نہیں سکتا۔ ان خطوط میں بھی اس کا ذکر۔ یہاں مزید ایک اور حوالہ دیکھ لیجئے۔ اشتہار نصرت دین مورخہ ۲؍مئی ۱۸۹۱ء میں فرماتے ہیں۔ ’’خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہی مقدر اور قرار پاچکا ہے کہ وہ لڑکی اس عاجز کے نکاح میں آئے گی خواہ پہلے باکرہ ہونے کی حالت میں آجائے یا خدائے تعالیٰ اس کو بیوہ کرکے میری طرف لائے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۱۹)
توبی توبی کی شرط اور اس کا پورا نہ ہونا
اب جناب حافظ جی صاحب کی ان دونوں رکیک تاویلوں پر نظر ڈالئے کہ توبہ سے نکاح ٹل گیا احمد بیگ نے توبہ نہ کی وہ ہلاک ہوگیا۔
حافظ جی کو یا تو خبر ہی نہیں یا دیدہ دلیری ہے یا طوطی کی صدا۔ جہاں کہیں بھی اس نکاح کو قسم کے ساتھ مؤکد کرتے ہوئے وعدۂ ربانی بتایا گیا اس کا آسمان پر منعقد ہونا ظاہر کیا گیا وہاں کہیں توبہ کا ذکر تک نہیں آیا اور اگر بالفرض توبہ کو شرط بھی قرار دیا جائے تو عذاب اور بلا کے لئے نہ کہ نکاح کے لئے۔ پھر توبی توبی کے صیغوں پر نظر ڈالئے کہ یہ مؤنث کے صیغے ہیں۔ چنانچہ خود مرزا قادیانی ان کا ترجمہ اور مطلب بیان فرماتے ہیں۔ (حقیقت الوحی ص۱۸۷، خزائن ج۲۲ ص۱۹۴)
’’اے عورت! توبہ کر توبہ کر کیونکہ تیری لڑکی اور تیری لڑکی کی نانی پر ایک بلا آنے والی ہے۔‘‘
۱… مرزا قادیانی نے خود واضح کردیا کہ اس کی مخاطبہ محمدی بیگم کی والدہ ہیں ان کے توبہ کرنے سے ان کی والدہ اور محمدی بیگم کی بلائیں ٹلیں گی۔ محمدی بیگم کی نانی پر کیا بلا آنے والی تھی جو ٹلی؟ خبر نہیں محمدی بیگم پر جو بلا آنے والی تھی وہ بقول حافظ جی ٹل گئی۔ اس سے ثابت ہوا کہ محمدی بیگم کی والدہ نے توبہ کی۔