اس تحریر میں ایک جگہ مجدد صاحب ؓ نے حضر ت عیسٰی علیہ السلام تحریر فرمایا ہے اوراسی تحریر میں دوسری جگہ آپ نے روح اﷲ کہہ کر یاد فرمایا جو کہیں بھی مسیح موعود کا لفظ ارقام نہیں فرمایا حالانکہ اس نام سے بھی وہی بات پیدا ہوتی یہ بھی ایک نہایت ہی لطیف اور باریک نکتہ ہے اور اس سے بھی صاف طور سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت مسیح موعود وہی حضرت عیسٰی علیہ السلام ہوں گے نہ کہ جناب مرزا غلام احمد صاحب الحاصل مجدد صاحب کے کلام سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے اجتہادی مسائل امام ابو حنیفہؒ کے موافق ہوں گے اب ناظرین فیصلہ(کریں کہ آیا مرزا صاحب کے مسائل بھی ایسے ہیں یا مرزاقادیانی نے امام صاحب سے مسائل میں اختلاف کیا ہے غرض کہ مجدد صاحب نے مسیح موعود کی جو علامت بیان فرمائی تھی ان کا امام صاحب سے اجتہاد میں متفق ہونا یہ علامت مرزاقادیانی میں نہیں پائی جاتی۔ اس لئے مجدد صاحبؒ کی بھی تحریر کے موافق مرزا صاحب مسیح موعود ہر گز نہ تھے) اب ناظرین مکرر میرے ترجمہ کو غور سے پڑھیں ان پر ایک عجیب حقانیت اور محویت کا عالم طاری ہوگااور یہ معلوم ہوجائے گا کہ نزدیک کا ترجمہ نزدیک ہی لکھ دینا اور انکا رنمایند کا ترجمہ (انکار کریں گے) قرینہ کے خلاف تحریر کر کے مؤلف القاء ربانی نے جو کچھ عارضی تشفی اپنی جماعت کو دی تھی اس کی کیسی قطع و برید ہوئی۔ خلیفہ جی ملاحظہ فرما ئیں۔
۸…فریب
پہلے حوالہ کی جو حقیقت تھی وہ معلوم کرنے کے بعد دوسرے حوالہ پر نظر دوڑائیے خدا کی شان یہاں بھی وہی دانستہ فریب دہی اور مقررہ خدع ہے پوری عبارت یہاں بھی مؤلف القاء ربانی نے تحریر نہیں کی حوالہ بھی غلط دیا ۔ مکتوب دوصدو پنجاہ و پنجم جلد اول ص ۲۷۸ء ملاحظہ فرمائیے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نصیحتاًیوں ارقام فرماتے ہیں:
’’منقول است کہ حضرت مہدی درزمان سلطنت خود چون ترویج دین نماید واحیاء سنت فرماید عالم مدینہ کہ عادت بعمل بدعت گرفتہ بود وآنرا حسن پند استہ ملحق بدین ساختہ از تعجب گوید کہ این مرد رفع دین مانمود وامانت ملت مافرمود، حضرت مہدی امر بکشتن آن عالم فرماید وحسنہ اورا سیئہ انکار وذلک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء واﷲ ذوالفضل العظیم‘‘
منقول ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام اپنے زمانہ سلطنت میں جب دین کی ترویج اور احیائے سنت فرمائیں گے۔ ایک (نافہم) عالم مدینہ جو بدعت کو حسن سمجھ کر اپنے دین میں ملحق کر کے اس پر عمل کرتا ہوگا۔ تعجب سے کہے گا کہ یہ شخص میرے دین اور ملت کو برباد کرتا ہے۔ (جب