حضورﷺ نے فرمایا کہ بعثت الی الاسود والاحمر میں تو کالے اور سرخ کے لئے مبعوث کیا گیا۔ رنگ ونسل کے امتیاز کو حضورﷺ نے مٹایا آج اگر مرزائی متنبی کو اصلی وحقیقی مسیح ناصری کے مقابلے میں نقلی اور جعلی مسیح بننے کی غرض سے ان کے ساتھ عناد ودشمنی ہے تو ہوا کرے اور ان کے چیلے اگر اسی عداوت کا اظہار بدیں الفاظ کرتے ہیں کہ ’’ہمیں بنی اسرائیل کے نبی کی حاجت نہیں۔‘‘ تو کیا کریں سارے عالم کے نبی (فداہ ابی وامی )اس ہرزہ سرائی کا جواب پہلے ہی فرما گئے کہ انا اولی الناس بعیسیٰ بن مریم…الخ! حضرت سید المرسلینﷺ کے اظہار شان ہی کے لئے رب العزت نے یہ حکمت رکھی کہ ظہور حضرت امام مہدی علیہ السلام کے وقت حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نزول فرمائیں تاکہ دنیا پر ظاہر ہوجائے کہ فاطمی النسل محمد بن عبداﷲ مہدی علیہ السلام امامت کررہے ہیں اور بنی اسرائیل کے نبی ان کے مقتدی۔ اگر کوئی جدید صاحب شریعت نبی آپ کے بعد آتے تو۔
۱… وعدہ ختم نبوت کیخلاف ہوتا۔
۲… ان کی شریعت کی ضرورت وعدۂ تکمیل دین کے خلاف ہوتی۔
اگر غیر صاحب شریعت جدید نبی آتے تو
۱… وعدۂ خاتم النّبیین کے خلاف ہوتا۔
۲… ایسے نبی تو اور انبیاء کے بعد بھی آئے اس میں شان تخصیص نہ رہتی۔
سید المرسلین نبی الانبیائﷺ جن کی نبوت کا میثاق سب رسل وانبیاء علیہم السلام سے لیا گیا۔ ان کی خاص شان کا اسی طرح اظہار کہ نبی اولوالعزم صاحب شریعت (جن کی شریعت نافذ ہوئی مگر شرع مصطفوی سے منسوخ ہوچکی) تشریف لائیں مگر تابع شرع مصطفوی بن کر اور مصداق یکون خلیفتی علی امتی ہوکر۔ اس لئے اس دلفریب منظر کو اس شادمانی وخوشی کے وقت کو حضور انورﷺ اس طرح پیش فرماتے ہیں۔ بیہقی صفحہ ۳۰۱ عن ابی ہریرۃؓ قال قال رسول اﷲﷺ کیف انتم اذا نزل عیسیٰ بن مریم من السماء فیکم وامامکم منکم تم۔ اس وقت کیسے (خوش) ہوگے جب عیسیٰ بن مریم آسمان سے تم میں نزول فرما ہوں گے اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا۔
اللّہم امنا وصدقنا بما اخبرنا نبیناﷺ