کیا ہے۔ علامہ نجم الدین نسفی نے عقائد میں تحریر کیا ہے: ’’اول الانبیاء اٰدم واٰخرہم محمدﷺ‘‘ یعنی پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام اور آخری نبی حضرت محمدﷺ ہیں۔ ملا علی قاری رحمتہ اﷲ علیہ نے شرح فقہ اکبر میں تحریر کیا ہے: ’’دعوۃ النبوہ بعد نبیناﷺ کفر بالاجماع‘‘ جو آنحضرتﷺ کے بعد مدعی نبوت ہو وہ باتفاق اہل اسلام دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
قیاس عقلی مقتضی ہے کہ باب نبوت مسدود ہے
چونکہ زمانہ ارتقاء کی طرف مائل رہا ہے اس لئے سابقہ شریعت مابعد کے زمانہ کے لئے کافی نہ ہوسکتی تھی۔ جب تک اس میں کچھ ردوبدل اور زمانہ کے حالات کے مطابق کچھ زائد احکام کا اضافہ نہ کیا جائے اور جابجا مناسب ترمیم سے اس کی تعلیم کو ضروریات زمانہ کا کفیل نہ بنادیا جائے لہٰذا یکے بعد دیگرے کتابیں نازل ہوتی رہیں۔
مذہب اسلام کی تکمیل ہوچکی ہے
حتیٰ کہ وہ زمانہ سر پر آپہنچا جس کا آخری حصہ قیامت سے ملا ہوا ہے اور حضرت محمدﷺ پر ایک جامع اور مکمل کتاب نازل کی گئی جس میں تمام تعلیم سابقہ کتابوں کی جمع کردی گئی ہے اس کے بعد قرآن نے کھلے لفظوں میں یہ دعویٰ کیا کہ ’’فیہا کتب قیمۃ‘‘ یعنی صحیفۂ رحمانی میں تمام نازل شدہ سچی کتابوں کا مضمون یکجا لکھ دیا گیا ہے اور حضورﷺ جب کہ اپنے آخری ایام میں حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں شتر سوار کھڑے تھے اور تبلیغ کا فرض بوجہ اتم سرانجام دے کر سبکدوش ہوچکے تھے تو جبرئیل علیہ السلام نے الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا کی بشارت سنائی وہ دن حاضرین اور مابعد کی آنے والی نسلوں کے لئے ایسا مبارک دن تھا کہ اس پر جتنی خوشی منائیں تھوڑی ہے۔
ایک یہودی کا خیال الیوم اکملت کے متعلق
حتیٰ کہ ایک یہودی اس آیت کے مضمون کو سن کر کہتا ہے کہ ایسی آیت اگر ہماری کتاب میں نازل ہوتی تو ہم یوم نزول کو عید کا روز قرار دیتے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے کہا کہ جمعہ کے دن بروز عرفہ یہ آیت نازل ہوئی جو ہم مسلمانوں کے لئے دونوں خوشی کے دن ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے کہ اس روز پانچ عیدیں جمع ہوگئی تھیں۔ جمعہ، عرفہ، عید یہود، عید نصاریٰ، عید مجوس، نہ اس کے بعد نہ اس سے پہلے کبھی ایسا اتفاق ہوا ہے۔