قرآن کے خلاف ہے۔ (اقول) جواب اس کا یہ ہے کہ معنی مجازی ہے جو بغیر قرینہ کے مستعمل نہیں ہوتا۔ ’’توفی‘‘ اس معنی میں قرآن میں کہیں نہیں آیا۔ اس لئے اسے استقراء نہیں کہہ سکتے۔ قرینے کی مجبوری ہے اوراس آیت میں چونکہ قرینہ نہیں ہے ۔اس لئے حقیقی معنی میں لیا جائے گا اور یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں۔
مرزائیوں کی دوسری دلیل قرآن پاک کی یہ آیت ہے
اللہ تعالیٰ سورئہ النساء میں فرماتا ہے:’’ وقولھم انا قتلنا المسیح ابن مریم رسول اﷲ وماقتلوہ وماصلبوہ ولکن شبہ لھم وان الذین اختلفو ا فیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم الا اتباع الظن وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اﷲ الیہ وکان اﷲ عزیزاحکیما‘‘
یعنی یہودیوں کا قول ہے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جو پیغمبر اﷲ کا تھا مارڈالا اورنہ اس کو مارا ہے اورنہ سولی پرچڑھایا ہے ۔لیکن مشتبہ کر دیا گیا ۔اس کے لئے جن لوگوں نے اختلاف کیا ۔اس معاملہ میں وہ اس جگہ شک میں پڑ گئے ان کو اس کی کچھ بھی خبر نہیں صرف گمان کرتے ہیں اوران کو بے شک قتل نہیں بلکہ اﷲ نے اپنی طرف اٹھالیا ہے۔
مرزائی کہتے ہیں کہ جب کہ تمام عوارض بشری مسیح میں پائے جاتے ہیں ۔تو پھر کون سا امر ان کو موت طبعی سے روک کر رفع روحانی سے رفع جسمی کی طرف منتقل کرتا ہے۔ یہود حضرت مسیح علیہ السلام کے مخالف ہوگئے تھے۔ خود تو ان کو قتل نہیں کر سکتے تھے اورروم کی سلطنت ان کے اختیار میں نہ تھی۔ اس لئے ان پر یہ الزام لگایا کہ بغاوت اوربادشاہی کا دعویٰ کرتا ہے اوراس الزام کا ثبوت دیا تاکہ ان کو صلیب کے ذریعہ سزادی جائے۔ مارا جانا یہودیوں کے خیال میں بروے توریت مدعی کاذب اور ملعون کے لئے مقرر تھا ورنہ قتل انبیاء اوراولیاء کے لئے علومدارج اوردرجات شہادت کا باعث ہے۔ اس لئے خدا نے مسیح علیہ السلام کی تنزیہ صلیب کی موت سے کی۔ تاکہ یہودیوں کا زعم باطل ہو جائے اوریہ مراد نہ تھی کہ مسیح علیہ السلام کو کسی قسم کی موت واقع نہ ہوگی۔ صرف لعنت کی موت سے مسیح علیہ السلام کو بری کرنا مقصود تھااورلفظ ’’شبہ لھم‘‘ یہاں صرف یہ جتانے کیلئے ہے کہ حضرت مسیح مقتول اورمصلوب کی طرح ہو گئے اوراصلی طور پر مصلوب اور مقتول نہیں ہوئے اوراس کلام سے خدا کی دو اغراض تھیں۔ ایک تو نصاریٰ کے کفارہ کا خیال باطل کرنا۔ دوسرے یہودیوں کا یہ فاسد عقیدہ باطل کرنا کہ جو مصلوب ہوتا ہے وہ ملعون ہوتا ہے۔