مرزا قادیانی کی وفات سے ایک گھنٹہ پہلے کیا ایک منٹ پہلے بھی کوئی شخص دوست ہو یا دشمن، شقی ہو یا سعید اس کے دل میں یہ خدشہ نہیں گزر سکتا ہے کہ مرزا قادیانی کا یہ عظیم الشان الہام پورا نہ ہو کیونکہ مرزا قادیانی حیات تھے بلکہ اپنی طبعی عمر کو بھی نہیں پہنچے تھے۔ محمدی بیگم بھی ماشاء اﷲ اپنے حسن دل آویز کے ساتھ جیتی جاگتی، صحیح وسالم اپنے شوہر کے گھر جسے مرزا قادیانی مرد اجنبی سے تعبیر کرتے ہیں پھول پھل رہی تھی، پھر معلوم نہیںکہ مؤلف القاء ربانی کس نامعلوم معترض کو قوم کے سامنے پیش کرتے ہیں اور کونسا جواب ایسے اعتراض کا خود حضور مغفور۔ (مرزا قادیانی) نے اپنے قلم سے اور دیگر خادمان سلسلہ نے دیا ہے۔ جب اعتراض ہی پیدا نہیں ہوسکتا تو جواب کیسا؟ یہ بالکل سفید جھوٹ اور دیدہ ودانستہ فریب دہی ہے۔ این کا راز تو آید ومردان چنیں کنند!
۴…فریب
مؤلف القاء ربانی تحریر کرتے ہیں کہ: ’’بعض دوسرے دوست بھی جنہوں نے اس کتاب (فیصلہ آسمانی) کو پڑھا تھا مجھے باور کرانے کی کوشش کی کہ اس کے مصنف مولوی سید محمد علی صاحب کانپوری ہیں یہ لوگ اگرچہ سلسلہ احمدیہ کے ممبر نہ تھے مگر ان لوگوں نے بوجہ علمی دستگاہ کے کتاب کے طرز استدلال کو محض لغو سمجھ کر مجھے اس کے جواب لکھنے کی بھی فرمائش کی۔‘‘
مؤلف القاء ربانی انظر الیٰ قال ولا تنظر علی من قال کے مسلم اور ستھرے دستور العمل کو نظر انداز فرما کر خواہ مخواہ کے الجھن میں گرفتار ہوئے، کام کی بات تو یہ تھی کہ فیصلہ آسمانی کے طرز استدلال اور نفس مضامین کی جانچ پڑتال کرتے خیر ہر شخص کی سمجھ جدا ہوتی ہے شاید ان کے نزدیک اس کے انکشاف میں کوئی مصلحت مضمر ہو مگر یہ تومسلم مسئلہ ہے کہ ہر دعویٰ کے لئے دلیل کی ضرورت ہے۔ مؤلف القاء ربانی کا یہ تحریر کرنا کہ: ’’بعض دوسرے دوست جو اس سلسلہ کے ممبر نہ تھے کتاب (فیصلہ آسمانی) کے طرز استدلال کو لغو سمجھا۔‘‘
یہ محض دعویٰ ہی دعویٰ ہے۔ اگر اس کی اصلیت اور واقعیت تھی تو کیوں نہیں ایسے ایک بھی ذیعلم حضرات کا نام وقعت تحریر کے لئے دلیلاً پیش فرمایا ہوتاکہ ہر طالب حق اس بات پر غور فرماتا اور اس سے بہت کچھ جماعت احمدیہ کو فائدہ پہنچتا۔ ایک دعویٰ قوم کے سامنے پیش کرکے دلیل سے گریز کرنی یہ کونسی عقلمندی اور حق پسندی ہے جن کو خدا نے محض اپنے فضل سے علمی دستگاہ مرحمت فرمائی ہے وہ خصوصیت کے ساتھ ہماری اس تحریر پر غور فرمائیں۔ غالباً یہ بھی منجملہ خدمات