قادیانی خود لکھتے ہیں۔ ’’پھر اس کے بعد الہام کیا گیا کہ ان علماء نے میرے گھر کو بدل ڈالا پھر میری عبادت گاہ میں ان کے چولہے ہیں میری پرستش کی جگہ میں ان کے پیالے اور ٹھوٹھیاں رکھی ہوئی ہیں اور چوہوں کی طرح میرے نبی کی حدیثوں کو کتر رہے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۷۶ طبع پنجم ص۲۳ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۱۴۰ حاشیہ)
اگر مرزا قادیانی کی مسیحیت کا قضیہ درمیان میں نہ ہوتا تو ہرگز ایسی جرأت نہ کرتے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اٹھانے کا وعدہ تو یقینا پورا ہوچکا جیسا کہ بل رفعہ اﷲ الیہ سے ثابت ہے۔ رہا وفات کا وعدہ سو۱؎۔
توفی کی بحث
توفی بمعنی نیند: اگر توفی کے معنی ’’نیند‘‘ کے کئے جائیں تو یہ وعدہ بھی پورا ہوگیا ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نیند کی حالت میں اٹھائے گئے جیسا کہ تفسیر ابن جریر میں ہے۔
۱؎ اس وعدے کے متعلق بھی ممکن ہے کہ کوئی منچلا مرزائی یہ کہہ دے کہ وفات کا وعدہ بھی پورا ہوچکا ہے جو فلما توفیتنی سے ثابت ہے سو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ جواب قیامت کے دن ہوگا جیسا کہ مرزا قادیانی کو بھی تسلیم ہے۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب حقیقت الوحی میں لکھتے ہیں: ’’کہ قرآن شریف کی اپنی آیات سے ظاہر ہے کہ یہ سوال حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے قیامت کے دن ہوگا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۱، خزائن ج۲۲ ص۳۳) اسی کتاب کے ضمیمے میں دوسری جگہ لکھتے ہیں۔ فان عیسیٰ یجیب بہذا الجواب یوم الحساب یعنی یقول فلما توفیتنی فی یوم یبعث الخلق ویحضرون… (استفتا ص۴۳، خزائن ج۲۲ ص۶۶۵) رسالہ الوصیت میں لکھتے ہیں۔ ’’خدا قیامت کو عیسیٰ سے پوچھے گا کہ کیا تونے ہی اپنی امت کو یہ تعلیم دی تھی کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کرکے مانوتو وہ جواب دیں گے کہ جب تک میں ان میں تھا تو ان پر شاہد تھا اور ان کا نگہبان تھا اور جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر مجھے کیا علم تھا کہ میرے بعد وہ کس ضلالت میں مبتلا ہوئے۔‘‘ (رسالہ الوصیت ص۱۳، خزائن ج۲۰ ص۳۱۳)
اس عبارت میں اگرچہ معنوی تحریف ہے تاہم ان جملہ عبارات سے ثابت ہوتا ہے کہ فلما توفیتنی کا جواب قیامت کے دن دیا جائے گا۔ پس اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اس آیت کے نزول تک فوت ہوچکے ہیں بلکہ قرآن مجید میں کو ئی آیت ایسی نہیں جس سے صراحتاً آپ کی وفات ثابت ہو مگر ان کا اٹھایا جانا آیت بل رفعہ اﷲ الیہ سے صاف طور پر ثابت ہے۔