جاری کیا اس کی عبارت ملاحظہ فرمائیے جو اس مضمون کو بالکل ہی واضح کردیتی ہے۔
مولوی ثناء اﷲ صاحب نے ’’حقیقت الوحی‘‘ کی اس دعوت عام کو دیکھ کر جو تمام علمائے اسلام کو مرزا قادیانی کی طرف سے دی گئی تھی مرزا قادیانی کو لکھا کہ ’’کتاب حقیقت الوحی بھیجئے تاکہ میں مباہلہ کی تیاری کروں۔‘‘ اس کے جواب میں انہیں بحکم مرزا قادیانی لکھا جاتا ہے کہ ’’آپ کا خط حضرت مسیح موعود کی خدمت میں پہنچا جس کے جواب میں آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ کی طرف حقیقت الوحی بھیجنے کا ارادہ اس وقت ظاہر کیا گیا تھا جس وقت مباہلہ کے واسطے لکھاگیا تھا کہ مباہلہ سے پہلے پڑھ لیتے مگر چونکہ آپ نے اپنے واسطے تعین عذاب کی خواہش ظاہر کی اور بغیر اس کے مباہلہ سے انکار کرے اپنے لئے فرار کی راہ نکالی اس واسطے مشیت ایزدی نے آپ کو اور راہ سے پکڑا اور حضرت حجۃ اﷲ مرزا قادیانی کے قلب میں آپ کے واسطے ایک دعا کی تحریک کی اور دوسرا طریق اختیار کیا۔‘‘ اس عبارت سے ناظرین نے بخوبی اندازہ لگا لیا ہوگا کہ یہ دوسرا طریق مباہلہ نہیں بلکہ تعین عذاب بصورت دعا ہے اور مشیت ایزدی کے مطابق یہی آخری فیصلہ ہے۔ اس دعا کا اثر فیصلہ کردے گا کہ اس باب میں کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔
مرزا قادیانی کی دعا
’’اے میرے آقا! اے میرے بھیجنے والے!… میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اﷲ میں سچا فیصلہ فرما اور وہ جو تیری نگاہ میں حقیقت میں مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی زندگی میں دنیا سے اٹھالے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۹)
ہم نے اس دعا کے اثر کا ذکر کیا جو دنیا نے دیکھ لیا مگر اس سے زیادہ شرمناک جھوٹ اور کیا ہوگا کہ حافظ جی اب تک اس کو مباہلہ کہے جاتے ہیں حالانکہ مرزا قادیانی کے انتقال کے بعد جب تمام ہندوستان میں اس دعا کی صداقت کا تذکرہ ہوا اور تمام اہل بصیرت نے حقیقت کو جان لیا تو تمام مرز ائی ٹولی نے پورا زور لگایا۔ آخر تین سو روپیہ کا انعام مقرر کیا اور یہی چیلنج دیا کہ ’’یہ فیصلہ نہ تھا مباہلہ تھا۔‘‘ مرزائی خلیفہ نمبر۱ کے وکیل منشی قاسم علی صاحب میدان مقابلہ میں آئے۔ سردار بچن سنگھ بی۔ اے پلیڈر فریقین کی طرف سے مسلمہ حکم مقرر کئے گئے۔ منشی قاسم علی صاحب اور مولوی ثناء اﷲ صاحب میں مباحثہ ومناظرہ ہوا، آخر انجام مبلغ تین سو روپیہ مولوی ثناء اﷲ صاحب نے بحکم حکم مرزائیوں سے وصول کیا اور غیر جانب دار حکم نے یہ فیصلہ دیا۔ (تحریر میں گو قدرے طوالت ہوجائے مگر ہم اس کے بعض کلمات بجنسہ لکھ دیتے ہیں۔)