گردانیدکہ ایں حق است وعنقریب خواہی دیدہ ومن این رابرائے صدق خود یا کذب خود میعارمی گردانم ومن نگفتم الا بعد زانکہ ازرب خود خبردادہ شد‘‘ جناب مرزا قادیانی خود ہی اس زوروشور سے اس پیش گوئی کو اپنے صدق اور کذب کا معیار قرار دیتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ: ’’اگر یہ پیش گوئی پوری نہ ہوئی تو مجھے کاذب اور ہربد سے بدتر سمجھو۔‘‘ اب مرزا قادیانی ہی کے توجہ دلانے سے ایک راست گفتار اور پاکباز انسان جو علم وفضل اور زہدوتقویٰ میں بھی محتاج شناسائی نہ ہو، وہ اس الہام پر غوروتدبر سے نظر فرمائے اور اس پیش گوئی کے پوری نہ ہونے پر اور بالبداہت غلط ہوجانے پر یہ کہہ دے کہ مرزا قادیانی اپنے اقرار کے بموجب کاذب اور ہربد سے بدتر ٹھہرے تو یہ اس کی خطا سمجھی جائے گی یا احقاق حق ؟
علامہ مصنف نے خود کوئی فیصلہ اپنی جانب سے نہیں کیا بلکہ جناب مرزا قادیانی کے میعاد مقرر کردہ کو صفائی کے ساتھ قوم کے سامنے پیش کردیا ہے۔ مثلاً یوں تصور کیجئے کہ ایک شخص مجمع عام میں یہ دعویٰ کرے کہ کل آفتاب غیر طبعی طریقہ سے مغرب سے طلوع ہوگا کہ اگر ایسا نہ ہوا اور کل آفتاب مغرب کی جانب سے طلوع نہ ہوا تو میں کاذب اور ہر بد سے بدتر ٹھہروں گا۔ لوگوں نے اس دعوے کو استعجاب سے سنا خدا خدا کرکے دن ختم ہوا۔ رات گزری صبح ہوتے ہی مغرب کی جانب لوگوں کی ٹکٹکی لگ گئی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر لوگ دیکھنے لگے۔ مگر آفتاب مغرب سے طلوع نہ ہوا۔ بلکہ اپنے مقررہ مطلع یعنی جانب مشرق سے برآمد ہوا۔ لوگوں نے اس کاذب مدعی کی دھر پکڑ کی اور ڈنکے کی چوٹ سے اسے یہ سنا دیا کہ تو اپنے اقرار کے بموجب کاذب اور ہر بد سے بد ٹھہرا تو کیا آپ کے نزدیک ایسا فیصلہ منصفانہ فیصلہ نہ ہوگا اور کیا ایسے گروہ کو بھی آپ مکذب ہی کے نام سے یاد کریں گے۔ اور کیا منصفانہ فیصلہ آپ کے نزدیک یہ ہے کہ اگر آفتاب مغرب سے طلوع نہ ہو اور مشرق ہی سے نکلے تاہم ایسے مدعی کو محض اس کے زبانی دعویٰ پر صادق ہونے کی ڈگری دے دینی چاہئے؟ فافہم وتدبر فانہ دقیق!
۳…فریب
مؤلف القاء ربانی تحریر کرتے ہیں کہ: ’’ایسے شبہات کا ازالہ خود حضور مغفور (مرزاقادیانی آنجہانی) نے اپنے قلم سے اور دیگر خادمان سلسلہ نے بہت کچھ کیا ہے میں نے کتاب کو قابل التفات نہیں سمجھا مگر اشتہار کے متکبرانہ دعوے نے پھر مجھ کو متوجہ کیاکہ میں اس کو بغور دیکھوں۔‘‘ اگر یہی غوروتدبر ہے تو خدا حافظ۔ دیانت اور حق پسندی کو مد نظر فرما کر (انجام آتھم