گر خدا خواہد کہ پردہ کس درد
میلش اندر طعنہ پاکان برد
۲…فریب
پھر مؤلف القاء ربانی تحریر کرتے ہیں یہ کہ مصنف (فیصلہ آسمانی) نے مثل اور مکذبین سلسلہ کے حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کو صریح خدا اور رسول پر افتراء کرنے والا قرار دے کر عوام کو خوش کرنے کا ارادہ کیا ہے۔‘‘ علامہ مصنف فیصلہ آسمانی نے آیات قرانیہ احادیث نبویہ اور دلائل عقلیہ سے نہایت محققانہ طور پر منکوحہ آسمانی والی پیشنگوئی پر روشنی ڈالی ہے اور وہی شیوہ اختیار کیا ہے جو راستی اور حق طلبی کا شیوہ ہے۔ علامہ کی روش بالکل ہی سلف صالحین رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کی سی ہے اور انہوں نے یہ تحریر عوام کے خوش کرنے کو نہیں لکھی ہے بلکہ اس کے اول مخاطب جماعت قادیان کے خلیفۃ المسیح حکیم الامت جناب حکیم مولوی نور الدین قادیانی ہیں اگرچہ کتاب فیصلہ آسمانی عام فہم ہونے کے خیال سے اردو زبان میں شائع کی گئی۔ مگر اس میں وہ وہ معارف اور نکات بیان کئے گئے ہیں۔ جسے عوام الناس اچھی طرح سمجھ بھی نہیں سکتے، اصل مقصود علامہ مصنف کا اس فیصلہ سے اہل علم کی تفہیم ہے۔ جب تو خلیفۃ المسیح رخ بچ ہوکر اور اپنا پہلو بچا کر جواب لکھنے کے لئے اپنے گروہ کے ایک مقتدر عالم کو مامور کرتے ہیں مولف القاء ربانی کے جوش نفسانی پر تعجب ہے کہ وہ اپنے خلیفۃ المسیح کے ارشاد کو بھی عامیانہ ارشاد سمجھتے ہیںاگر ذرا بھی تدبر سے کام لیتے تو اس ارشاد کی باریکی اور علامہ مصنف کی قابل قدر علمی گفتگو کی راستی آپ پر اظہر من الشمس ہوجاتی یہ اور بات ہے کہ کوئی شخص جہل مرکب کو علم سمجھ کر کج فہمی سے کام لے اور رسالے کی خوبی کو پس پشت ڈال دئیے۔ مؤلف القاء ربانی (ضمیمہ انجام آتھم کا ص۵۴، خزائن ج۱۱ ص۳۳۸) ملاحظہ فرمائیں جناب مرزا قادیانی خود تحریر کرگئے ہیں۔ ’’یادرکھواس پیش گوئی کی دوسری خبر پوری نہ ہوئی(یعنی احمد بیگ کاداماد میرے سامنے نہ مرا) تومیں ہر ایک بد سے بدتر ٹھہروں گا۔ اے احمقو یہ انسان کا افترنہیں۔ یہ کسی خبیث مفتری کا کار وبارنہیں۔یقیناً سمجھو کہ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے۔ وہی خدا جس کی باتیں نہیں ٹلتیں۔‘‘ پھر اسی (انجام آتھم کا ص۲۲۳، خزائن ج ۱۱ص۲۲۳) ملاحظہ ہو۔
یہاں یوں تحریر کرتے ہیں کہ: ’’اصل امر برحال خود قائم است وہیچکس باحیلۂ خود اورا ردنتوا ں کرد واین تقدیر از خدائے بزرگ تقدیر مبرم است وعنقریب وقت آن خواہد آمد پس قسم آن خدائیکہ حضرت محمد مصطفیﷺ ما مبعوث فرمود اورا بہترین مخلوقات