ہمیں امید ہے کہ ان مثالوں کو دیکھ کر شاید حافظ جی کی سمجھ میں یہ تو آجائے کہ اختلاف اسے کہتے ہیں۔
خدا کے کلام، خدا کے الہام میں اس اختلاف کی مثال مل ہی نہیں سکتی، ہاں نسخ کی مثال اگر سمجھنا چاہیں تو اس عجالہ میں ہم اشارۃً انہیں انہی کی تحریر یاد دلا دیں گے تحویل قبلہ کا حکم ناسخ ہے اپنے ماقبل کے لئے۔ باقی جس میں عقل ہو وہ سمجھ لے۔
بیٹے کی پیش گوئی
حافظ جی ہمیں الزام دیتے ہیں کہ ہم نے مرزا قادیانی کے مزعومہ الہام میں تحریف سے کام لیا اور عبارت کے پہلے فقرے کو چھوڑ دیا۔ یعنی انا لنبشرک بغلام مظہر الحق والعلا کان اﷲ نزل من السماء کہ ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کے ذریعے خدا کی ذات اور اس کی عظمت کا ایسے رنگ میں اظہار ہوگا کہ گویا خدا آسمان سے اتر آیا۔
(انجام آتھم ص۶۲، خزائن ج۱۱ ص۶۲)
ہم اس عبارت پر تنقید نہیں کرتے اس لئے کہ اگر کوئی اہل علم مخاطب ہوتا تو علمی غلطیاں بتاتے۔ ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ حافظ جی کو اتنی بھی خبر نہیں کہ مظہر اسم ہے یا فعل۔ ہم یہ بھی نہیں جتاتے کہ عربی عبارت کے ترجمے میں حافظ جی نے کس قدر تحریف کی۔ ’’جس کے ذریعے‘‘ اور ’’ایسے رنگ میں‘‘ ان دونوں کلموں کے لئے عربی عبارت میں کوئی لفظ نہیں۔ ہم اصطلاحات نحو کی رو سے عربی عبارت کی ترکیب کرتے ہیںیہ بھی نہیں ظاہر کرتے کہ مشبہ کون مشبہ بہ کون اور وجہ شبہ کیا؟ ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ صفت کیا ہے اور موصوف کون؟ ہم اس مضمون کو بھی اس وقت سامنے نہیں لاتے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے آسمان پر خدا کے پاس جانے کا عقیدہ رکھنے کے سبب تو مرزائی لوگ مسلمانوں پر شرک کا الزام لگاتے اور یہ کہتے ہیں کہ خدا کو آسمان پر مان لیا مگر یہاں اﷲ کے آسمان سے اترنے کا خود اظہار کیا (معاذ اﷲ)۔ہمیں تو اس وقت صرف اس قدر بتانا ہے کہ ہم نے جو اعتراض کیا وہ صحیح تھا یعنی مرزا قادیانی نے پیش گوئی کی کہ ان کا ایک بیٹا ہوگا اور اس بیٹے کی صفت بیان فرمائی کہ گویا خدا آسمان سے اتر آیا۔ ادنیٰ عقل والا بھی سمجھ جائے گا کہ ’’مظہر الحق والعلا‘‘ اور کان اﷲ نزل من السماء (مجموعہ اشتہارات جلد دوم ص۱۰۱) دونوں فقرے اس غلام (لڑکے) کی صفت کا اظہار کررہے ہیں، پس اس غلام کو اﷲ سے تشبیہ دی جانی ظاہر اور اعتراض ثابت۔
دوسرے یہ امر کہ اس پیش گوئی کے مصداق مرزا بشیر محمود صاحب ہیں یا کون؟ اس کا