سامعین کو یاد ہوگا کہ اس کے بعد ہم نے تذکرہ میں یہ بھی بتایا تھا کہ مرزا قادیانی نے اپنے گھر کو وسیع کرنے اور بڑا بنانے کے لئے چندہ مانگنے کا حیلہ بناتے ہوئے بھی لکھا تھا کہ ہمارا گھر طاعون سے محفوظ رہے گا لہٰذا اس میں بہت سے آدمیوں کے رہنے کی جگہ کرنے کے لئے بڑا بنانے کی ضرورت اور اس لئے روپیہ کی حاجت۔ پس لائو چندہ!!!
گھر تو اس بہانے سے بن گیا چندہ بھی خاطر خواہ مل گیا اب حافظ جی تو لکھتے ہیں کہ آج تک اس گھر کا چوہا بھی طاعون سے نہ مرا۔ مگر مرزا قادیانی (حقیقت الوحی کے ص۳۲۹، خزائن ج۲۲ ص۳۴۲) پر اعتراف فرماتے ہیں کہ ’’جب دوسرے دن کی صبح ہوئی تو میر صاحب کے بیٹے اسحاق کو تیز تپ ہوا اور سخت گھبراہٹ شروع ہوگئی اور دونوں طرف ران میں گلٹیاں نکل آئیں۔‘‘
حافظ جی شاید اس کی بھی تاویل فرما دیںکہ گھر سے مراد ہے وہ خاص کمرہ جس میں مرزا قادیانی سوتے تھے بلکہ کمرہ سے مراد بھی وہ چارپائی جس پر وہ آرام فرماتے تھے بلکہ چارپائی سے بھی ان کا جسم یعنی مرزا قادیانی کے جسم میں حلول کرگیا وہ طاعون سے نہ مرا۔
یہ سوک رشی کی تاویلات کا نمونہ ہے وہ فرمائے جائیں۔ پیراںدتہ وعبدالکریم کی روحیں اب دنیا میں آکر نہ بتائیں گی کہ وہ خود مرزا قادیانی کے گھر ہی میں طاعون سے مرے تھے۔ محمد افضل وبرہان الدین ومحمد شریف ونور احمد وغیرہ خاص خاص مرزائی اب بول ہی نہیں سکتے کہ وہ کس درجہ کے فدائی تھے اور قادیان ہی میں مرزا قادیانی کی دیکھتی آنکھوں طاعون ہی سے ہلاک ہوئے۔ (دیکھو ذکر الحکیم ص۹۱)
مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری سے مرزا قادیانی کا آخری فیصلہ
ہم حیران ہیں کہ حافظ جی کے جھوٹ کہاں تک جتائے جائیں ہم نے ہرگز اپنی تقریر میں مباہلہ کا ذکر ہی نہیں کیا بلکہ اس آخری فیصلہ اور دعا کو یاد دلایا جس کی تصدیق میں مرزا قادیانی نے اس عالم کو چھوڑا۔
مرزا قادیانی نے مولوی ثناء اﷲ صاحب کے باب میں اشتہار دیا جس کا عنوان ہی یہ بتا دے گا کہ یہ فیصلہ تھانہ کہ مباہلہ۔ عنوان یہ ہے: ’’مولوی ثناء اﷲ کے ساتھ آخری فیصلہ‘‘
سارا اشتہار پڑھ جائیے لیکن ایک جگہ بھی اگر مباہلہ کا لفظ مل جائے یا کہیں یہ بھی لکھا ہوا نظر آئے کہ اس دعا کے مقابلے میں مولوی صاحب موصوف بھی یہی دعا فرمائیں جیسا کہ ڈوئی اور دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں مرزا قادیانی نے لکھا تو ہم ذمہ دار۔ پھر مزید ثبوت کے لئے جناب مرزا قادیانی کے حکم سے ان کے رشتہ دار نے جو حکم نامہ جناب مولوی صاحب موصوف کے نام