سری کرشن جی کا دوسرا روپ یا تصویر کا دوسرا رخ
بھاگوت پر ان میں بھی کرشن جی کی دوسری تصویر اس طرح نظر آتی ہے کہ:
دریا میں کرشن جی اشنان فرما رہے ہیں اور گوپھیاں (خوبصورت عورتیں) بھی نہا رہی ہیں۔ کرشن جی گوپھیوں کے کپڑے چھپا دیتے ہیں سب کی سب دریا سے برہنہ نکلتی ہیں اپنے کپڑوں کی تلاش کرتی ہیں۔ سری کرشن جی گوپھیوں سے لذت اندوز ہونے کے لئے اپنے بہت سے جسم پیدا کرلیتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ (ملخصا)
سوک رشی سے راجہ پرکشت پوچھتا ہے کہ خدا تو اوتار کے روپ میں اس لئے ظاہر ہوا کرتا ہے کہ سچا دھرم پھیلائے۔ یہ کیسا خدا ہے کہ دھرم کے تمام اصولوں کے خلاف دوسروں کی عورتوں سے…؟
رشی جی کرشن جی کے عمل کی تاویل اس طرح فرماتے ہیں کہ ’’خود دیوتا بھی بعض اوقات نیکی کی راہ سے ہٹ جاتے ہیں مگر ان کے گناہ ان کی ذات پر اسی طرح اثر نہیں کرتے جس طرح آگ تمام چیزوں کو جلانے کے باوجود مورد الزام نہیں ہوسکتی۔‘‘
ان دونوں تصویروں کو دیکھتے ہوئے زیادہ بریں نیست کے حسن خیال کی بناء پر ہم یہ کہہ دیں کہ یہ دونوں غلط ہیں اور وہ محض ایک انسان تھے اور ایسی شرمناک باتیں ہرگز نہ کرتے ہوں گے۔ مگر یہاں تو غور طلب یہ امر ہے کہ تاریخی نقطہ نظر سے بھی دو تصویریں ہمارے سامنے ہیں پس جو حکم بھی دیا جائے گا وہ اسی معلومات کی بناء پر اور اس کے بلکہ صرف اس کے ہوتے ہوئے کون صاحب عقل ان کو نبی بتا سکتا ہے؟ اور اس خدائی خطاب کو ان پر چسپاں کرسکتا ہے؟ درآنحالیکہ خدائی کتاب میں اس کا اعلان ان کی شخصیت پر نہ کیا گیا ہو۔ تصویر کے دوسرے رخ یا کرشن کے دوسرے روپ کے پہلے حصہ کا تعلق مرزا قادیانی سے کیا ہے اس کے متعلق لب کشائی سردست مناسب نہیں معلوم ہوتی لیکن دوسرے روپ کے باب میں سوک رشی جی نے جو کچھ فرمایا اسے دیکھتے ہوئے ہم اس کی تصدیق کرنے میں ذرا تامل نہ کریں گے کہ بے شک کرشن قادیانی جی کے چیلے بھی ان کی بات کو بنانے اور تاویل فرمانے میں ایسے ہی مشتاق ہیں جیسے رشی جی تھے۔ گویا مرزا قادیانی اگر کرشن جی کے اوتار ہیں تو وہ سوک رشی جی کے۔ اس لئے کہ کوئی ضرورت تو ہوگی جس کے لئے مرزا قادیانی نے اپنا یہ مزعومہ الہام بیان فرمایا کہ:
۱… {اعمل ماشئت قد غفرت لک}’’جو چاہے تو کئے جا ہم نے تجھے بخش دیا۔‘‘