میدان حدیبیہ میں فاروقی تنقیح
شاہ عبدالقادر صاحبؒ لکھتے ہیں کہ صدیقؓ جوہ جو وحی میں آئے گا ان کا دل آپ ہی اس پر گواہی دے۔ اس امر کی تصدیق کے لئے وہ واقعہ کافی ہے کہ میدان حدیبیہ میں جب مشرکین مکہ نے حضرتﷺ کو داخلہ مکہ کی اجازت نہ دی اور حضرتﷺ داخلہ کے متعلق اپنی رویاء مشتہر کرچکے تھے تو عمرؓ بن خطاب کہتے ہیں کہ بشریت کے تقاضا سے میرے دل میں شکوک موجزن ہوئے۔ شروع اسلام سے مجھے ایسا تردد کبھی پیدا نہیں ہوا جیسا اس روز پیش آیا۔ میں نے حضرتﷺ کی خدمت میں اپنا شبہ ان لفظوں میں پیش کیا۔
۱… کیا آپ خدا کے نبی نہیں۔ جواب دیا کہ ہاں میں رسول صادق ہوں۔
۲… کیا ہم حق پر نہیں اور ہمارے اعداء دین باطل کے پابند نہیں۔ جواب ملا کیوں نہیں!! تب میں بولا کہ دین کے معاوضہ میں دنیا دے کر ہم خالی واپس کیوں جائیں ہم چاہتے ہیں کہ معاملہ ایک طرف ہوجائے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میں خدا کا سچا رسول ہوں اور وہ میرا معاون ہے۔ اور میں اس کے اشارے پر چلتا ہوں اس کی حکم عدولی ہرگز نہیں کرتا۔ پھر میں نے کہا کہ آپﷺ نے ہمیں یہ رویا سنائی تھی کہ ہم خانہ کعبہ میں جاکر اس کا طواف کریں گے۔
بقیہ حاشیہ
واما حسین فاذکروا دشت کربلا
الی ہذہ الایام تبکون فانظروا
وانی بفضل اﷲ فی حجر خالقی
ادبی واعصم من لئام تنمروا
(اعجاز احمدی ص۶۹تا۸۲، خزائن ج۱۹ ص۱۸۱تا۱۹۴)
یہ قصیدہ اعجازیہ کے اشعار ہیں جن کا مطلب یہ ہے تم نے اس کشتہ سے نجات چاہی جو نو میدی سے مر گیا۔ پس تم کو خدا نے جو غیور ہے ہر ایک مراد سے نومید کیا وہ خدا جو ہلاک کرنے والا ہے۔ بخدا اسے مجھ سے کچھ زیادت نہیں اور میرے پاس خدا کی گواہیاں ہیں پس تم دیکھ لو اور میں خدا کا کشتہ ہوں۔ لیکن تمہارا حسین دشمنوں کا کشتہ ہے پس فرق کھلا کھلا اور ظاہر ہے۔ مجھ میں اور تمہارے حسین میں بہت فرق ہے کیونکہ مجھے تو ہر ایک وقت خدا کی تائید اور مدد مل رہی ہے۔ مگر حسین پس تم دشت کربلا کو یاد کرلو۔ اب تک تم روتے ہو۔ پس سوچ لو اور میں خدا کے فضل سے اس کے کنار عاطفت میں ہوں پرورش پا رہا ہوں اور ہمیشہ لئیموں سے جو پلنگ صورت ہیں بچایا جاتا ہوں۔