معنے ’’توفیتنی ‘‘کا اگر اس جگہ میں اٹھالینا عیسیٰ علیہ السلام کا بجسد عنصری نہ ہوتا تو ضرور لفظ موت کا بیان استعمال ہوتا۔اس لئے کہ یہ لفظ مشتبہ المعنے تھا۔ جیسا کہ ہم اسی لفظ کو بہت معنوں کے لئے قرآن شریف میں غرض پنجم مکر یہود میں مفصلاً دکھا چکے ہیں۔پس ثابت ہوا کہ ’’توفیتنی‘‘ کا معنے قصہ عیسیٰ علیہ السلام میں فوت ہونے کا نہیں۔ معاذ اﷲ فوت ہونا عیسیٰ علیہ السلام کا یہودیوں کا اعتقاد تھا۔ نہ اہل اسلام کا۔دوم رکوع ۱۶جس میں ہم بحث کر رہے ہیں اور رکوع ۱۵جو ماقبل ۱۶کے ہے۔اس میں پروردگار نے اپنے تمام احسانات جو عیسیٰ علیہ السلام پر کئے ہوئے تھے۔بیان فرمائے۔ منجملہ احسانات میں سے ایک احسان عیسیٰ علیہ السلام کا مکر یہود سے بچنا ہے:’’اذ کففت بنی اسرائیل عنک‘‘ پس آیت ہذا سے بھی ثابت ہوا کہ توفیتنی کامعنے اٹھالینے کے ہیں ۔کیونکہ رکوع ۱۵جہاں ختم ہوتا ہے اوررکوع۱۶شروع ہوتا ہے۔وہاں وقف کافی ہے۔یعنی مضمون ماقبل اورما بعد کاملتا ہے۔
حصہ دوم تکذیب قادیانی
فصل اوّل…مسیح موعود بننے کی خودغرضیوں میں
خود غرضی اول دعوے مسیحیت میں۔ مرزاقادیانی نے دعوے مسیحیت میں چار غلطیاں کی ہیں۔
غلطی اول… مسیح کا لفظ عبرانی ہے۔معنے اس کا جس کے ہاتھ لگانے سے لاعلاج مریض اچھے ہوں یا مردے زندہ ہوں۔یہ اوصاف عیسیٰ علیہ السلام کے قرآن شریف سے ثابت ہوتے ہیں:’’وابری الاکمہ والابرص واحیی الموتی باذن اﷲ(آل عمران:۴۹) ‘‘ پس قرآن شریف سے مسیح کا صحیح معنے یہی ثابت ہوا جو ہم نے بیان کیا ہے۔ نہ سیاحت جو کہ مرزاقادیانی نے سمجھے ہیں۔ قرآن شریف سے ثابت نہیں اور نہ ہی سیاحت موصوف کے لئے صفت ہے۔ جبکہ مرزاقادیانی میں مسیحیت کے اوصاف نہیں تو دعوے کیونکر کر سکتے ہیں۔ اب ہم اسم مسیح کی غرض بیان کرتے ہیں ۔ وہ یہ ہے زمانہ مسیح میں طبیبوں کا بڑا زور تھا۔ اوراپنے علم وتجربات کا ان کو نہایت گھمنڈ تھا۔ حتیٰ کہ صفات الوہیت کودعوے طلب سے چھوڑتے جاتے تھے۔ چونکہ پروردگار کو اپنی قدرت کاملہ کااظہار اورطبیبوں کو عاجز کرنا منظور تھا لہٰذا خدا تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو دوخواص برخلاف فطرت انسانی کے بخشے۔ اول بن باپ پیدا ہونا۔ دوم شفا بے علاج ادویہ ہونا۔یہ دونوں خواص طبیبوں کے نزدیک غیر ممکن تھے۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی فطرت میں ممکن کیا اورفرمایا کہ یہ میری قادریت کا نشان ہے۔جیسا کہ :’’وجعلنہا وابنہا ایۃ للعالمین(الانبیائ:۹۱)‘‘ سے ثابت ہے ۔