لما دعی اﷲ داعینا لطاعتہ
باکرم الرسل کنا اکرم الامم
جب خدا تعالیٰ نے آنحضرت کو جو ہمیں خدا کی اطاعت کے لئے بلانے والے ہیں، تمام پیغمبروں سے افضل کہہ کر پکارا تو ہم بھی تمام امتوں سے افضل ہوگئے۔
کسی شاعر نے فارسی میں یہی مضمون اسی طرح ادا کیا ہے۔
چوں خدا پیغمبر مارا رحمت خوانداست
افضل پیغمبراں او گشتہ ما خیر الامم
تفسیر درمنثور میں ہے: ’’واخرج ابن مردویۃ عن ابی بن کعب ان النّبیﷺ قال اعطیت مالم یعط احد من انبیاء اﷲ قلنا یا رسول اﷲ ما ہو قال نصرت بالرعب واعطیت مفاتیح الارض وسمیت احمد وجعل لی تراب الارض طہورا وجعلت امتی خیر الامم‘‘ {ابن مردودیہ نے ابی بن کعب سے، انہوں نے نبیﷺ سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا: مجھے وہ کچھ دیا گیا جو اور کسی نبی اﷲ کو نہیں دیا گیا۔ ہم نے کہا: یا رسول اﷲ وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: میری نصرت رعب سے کی گئی اور مجھے زمین کی کنجیاں دی گئیں اور میرا نام احمد رکھا گیا اور میرے لئے مٹی پاک بنائی گئی اور میری امت بہترین امت بنائی گئی۔ } (درمنثور ج۶، ص۲۱۴ سطر۸ تا ۱۰)
یہ حدیث مولوی محمد علی صاحب نے بھی اپنی تفسیر، بیان القرآن ج۱ ص۳۷۱ میں درج کی ہے اور اس کے نیچے امت کی فضیلت کو بیان کیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں: ’’یہاں ساری امت کی فضیلت کا دوسری امتوں پر ظاہر کرنا مقصود ہے اور اگر اس امت کے معلم مزکی محمد رسول اﷲﷺ دنیا کے تمام روحانی معلموں اور مزکیوں سے افضل ہیں تو کوئی اور وجہ نہیں کہ آنجناب کے شاگرد تمام الانبیاء کے شاگردوں سے افضل نہ ہوں۔‘‘
پس اس بہترین خطاب (خیر الامم) میں وہی خوش قسمت ہوسکتا ہے جو شمع رسالت کا پروانہ ہو، نہ وہ بدنصیب جو کسی جھوٹے مدعی نبوت کا دیوانہ ہو۔
شبہ درشبہ نمبر۱
اگر کوئی شخص یہاں یہ شبہ پیش کرے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انبیاء کا کام ہے اگر اس امت میں کوئی نبی نہیں ہوگا تو یہ کام کون کرے گا؟ تو