الغرض آیات مندرجہ بالا میں آنحضرتﷺ کے سوا کوئی دوسرا شخص ایرا غیرا، نتھو خیرا شامل نہیں ہوسکتا اور نہ ان کو کسی کے لئے ’’قاعدہ کلیہ‘‘ تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ تاہم بفرض محال چند منٹ کے لئے مان ہی لیں تو پھر مرزائیوں کے لئے کچھ مفید نہیں۔ اس سے مرزا قادیانی کی صداقت ثابت نہیں ہوسکتی۔ بلکہ جھوٹے ہی ثابت ہوتے ہیں کیونکہ بقول مرزا محمود قادیانی مرزا قادیانی نے ۱۹۰۱ء میں نبوت کا دعویٰ کیا اور مئی ۱۹۰۸ء بعارضہ ہیضہ لاہور میں اچانک فوت ہوگئے۔ گویا سات ہی سال میں گرفت الٰہی سے ان کا کام تمام ہوگیا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار
سوال پنجم… آپ عیسیٰ علیہ السلام کو بہ ایں جسد عنصری آسمان پر تا ایں دم مانتے ہیں یا دیگر انبیاء کی طرح فوت شدہ؟ اور ان کی آمد ثانی کے قائل ہیں یا نہیں؟
جواب… اس سوال کے اگرچہ بظاہر دو حصے ہیں۔ ایک رفع مسیح بجسد عنصری بر آسمان اور دوسرا نزول مسیح۔ لیکن جواب کے لحاظ سے دونوںمیں ایک قسم کا اشتراک ہے۔ مثلاً اگر ’’نزول مسیح‘‘ ثابت کردیا جائے تو ’’رفع مسیح‘‘ خودبخود ثابت ہوجائے گا کیونکہ نزول سے پہلے رفع لازمی ہے۔ اسی طرح اگر ’’رفع‘‘ ثابت ہوجائے تو نزول کا ثابت ہونا کوئی مشکل نہیں مگر چونکہ سائل نے دونوں حصوں کے متعلق سوال کیا ہے ا سلئے دونوں حصوں کا علیحدہ علیحدہ جواب لکھا جاتا ہے۔ (بمنہ وکرمہ)
جواب حصہ اوّل
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر زندہ اٹھایا جانا
بے شک حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے اور تاحال زندہ آسمان پر موجود ہیں۔
ابن مریم زندہ ہے حق کی قسم
آسمانوں پر ہے اب وہ محترم
ہے ثبوت اس کا ہمیں قرآن سے
جو نہ مانے خالی ہے ایمان سے
قرآن مجید سے ثبوت
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر اٹھایا جانا کئی آیات سے ثابت ہے۔ چنانچہ پہلی