الھین من دون اﷲ۔ قال سبحانک مایکون لی ان اقول مالیس لی بحق۔ان کنت قلتہ فقد علمتہ تعلم مافی نفسی ولااعلم مافی نفسک۔ انک انت علام الغیوب۔ماقلت لھم الاماامرتنی بہ ان اعبدواﷲ ربی وربکم وکنت علیھم شھیدامادمت فیھم فلماتوفیتنی کنت انت الرقیب علیہم وانت علی کل شی شھید‘‘ جس وقت اﷲ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ کیا تو آدمیوں سے کہتا تھا کہ مجھ کو اورمیری ماں کو دوخدا ،سوائے خدا کے سمجھو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا:۔تیری ذات پاک ہے مجھ کو یہ لائق نہیں کہ وہ بات کہوں جو میرے لائق نہیں ہے۔اگر میں نے کہاکہ تو ۔ تو وہ چیز جانتا ہے جو میرے نفس میں ہے۔ اورمیں وہ نہیں جانتا ہوں جو تیرے نفس میں ہے۔ تحقیق توغیب کا جاننے والد ہے۔ ان سے میں نے وہی کہا ہے جس کا تو نے مجھ کو حکم دیاتھا کہ اﷲتعالیٰ جو میرا اورتمہارا دونوں کاپروردگار ہے اوران پر میں گواہ تھا جب تک ان میں تھا اورجب کہ تو نے مجھ کو موت دی تو تو ان پرنگہبان ہے اور توہی سب پر گواہ ہے۔
اقول:’’آیت کریمہ میں لفظ ’’توفیتنی‘‘ واقع ہے مرزائی اس کے معنی موت کے لیتے ہیں اورتائید اس کی بخاری شریف کی حدیث جو ابن عباسؓ سے حشر کے بارے میں مروی ہے۔ کرتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ نے فرمایا:’’ فاقول کماقال البعد الصالح وکنت علیھم شھیدا مادمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم‘‘یعنی میں کہوں گا جیسا کہ بندہ صالح یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ جب تک میں ان میں تھا ۔ان کے حال سے واقف تھا اورجب تو نے مجھ کو ان میں سے اٹھا لیا تو تو ان کا نگہبان اوران کے حال سے واقف ہے۔ مرزائی کہتے ہیں کہ یہ سوال وجواب عالم برزخ میں واقع ہوئے۔اگر حشر میں ان کا واقع ہونا مانا جائے گا تو درست نہ ہوگا۔ کیونکہ ہمارے حضرت محمدﷺ نے تو اپنا جواب لفظ مضارع کے ساتھ دیا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لفظ ماضی کے ساتھ ذکر کیا ہے۔تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام سے اول حساب لے کر اس کے بعد سرورکائناتؐ بلائے جائیں گے تاکہ مسیح علیہ السلام کے مطابق جواب دیں اورایسا کسی عالم نے نہیں کہاہے اورنہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ (انتھی کلام المرزائیۃ)
الجواب مرزائیوں کی تیسری دلیل کا جواب
اقول: مرزائیوں نے اس آیت سے استدلال غلط طور پر وجہ کیا ہے اوراس کے معنی موت کے لئے ہیں ۔ جو نصوص صریحہ اوراحادیث صحیحہ اورآئمہ سلف وخلف کے خلاف ہے۔ یہاں