اردو یا فرنچ کے بے جا ترجموں کو پڑھ لینے کے یہ معنی نہیں ہوسکتے کہ اس نے معانی قرآن کریم کو پالیا۔ شان نزول آیات وتفسیر نبوی کے مطالعہ کے بغیر یہ نتیجہ نکال لینا کہ صحیح طور سے مطالب قرآن پر عبور ہوگیا۔ ایک جاہلانہ وہم نہیںتو کیا ہے؟
شان نزول آیات ہی سے یہ پتہ چلے گا کہ کونسا حکم مقدم ہے اور کونسا موخر حافظ جی کو ابھی نسخ اور اختلاف کے لغوی فرق کی بھی خبر نہیں تو وہ میرے جملوں کا مطلب کیا سمجھتے۔ اگر سمجھنا چاہتے ہیں تو میں تیار ہوں۔ شاگردوں کی صورت میں آئیں میرے تلامذہ کے زمرہ میں شریک ہوجائیں۔ طالب علموں کی طرح پہلے صرف ونحو پڑھیں۔ ادب سیکھیں، جب تفسیر پڑھانے کا وقت آئے گا تو میں ان کو بتا دوں گا کہ ناسخ کسے کہتے ہیں اور منسوخ کسے؟ کتنے احکام ناسخ ہیں اور کتنے منسوخ؟ نیز یہ بھی سمجھا دوں گا کہ نسخ حکم دوسری چیز ہے اور اختلاف واقعات دوسری چیز۔ وحی الٰہی قرآن کریم یقینا اختلاف سے قطعاً پاک، نہ اس کے الفاظ میں اختلاف، نہ معانی میں تخالف، نسخ احکام حکمت ربانی پر دلیل، نسخ کو اختلاف کہنا کسی جاہل نہیں اجہل ہی کا کام ہوسکتا ہے۔
خدا کے کلام میں نہ تو اختلاف ہے نہ ہوسکتا ہے۔ ہاں! جھوٹے الہام کی یہی پہچان ہے کہ اس میں اختلاف ہوگا۔ چنانچہ اگر حافظ صاحب کو عجلت ہے تو ذیل کی مثال سے دیکھ لیں۔
اختلاف واقعات گزشتہ
مرزا قادیانی اپنی کتاب (براہین احمدیہ ص۴۹۸، خزائن ج۱ ص۵۹۳) میں (جس کے متعلق یہ دعویٰ ہے کہ بالہام الٰہی لکھی گئی ہے) فرماتے ہیں: ’’جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق واقطار میں پھیل جائے گا۔‘‘
مرزا جی اپنی کتاب (ازالہ اوہام ص۵۶۱، خزائن ج۳ ص۴۰۲) میں فرماتے ہیں: ’’اور میرے پر اپنے خاص الہام سے ظاہر کیا کہ مسیح بن مریم فوت ہوچکا ہے اور اس کے رنگ میں ہوکر وعدہ کے مطابق تو آیا ہے۔ ‘‘
نوٹ… ادھر انہی مسیح علیہ السلام کا دوبارہ آنا معتبر اور ان کی حیات کی خبر
نوٹ… ادھر اپنے مسیح ہونے پر اصرار اور ان کی حیات سے انکار
فاعتبروا یا اولی الابصار
اختلاف واقعات آئندہ
مرزا قادیانی کا دعویٰ ہے کہ انہیں الہام ہوا کہ
مرزا قادیانی کو فی الجملہ تسلیم ہے کہ پیشین گوئی