نزول کا مشاہدہ کیا۔ آنحضرتﷺ کی رفاقت میں مال وجان کو نثار کیا۔ ان کے اعمال کا ثمرہ متاخرین کے اعمال کی نسبت زیادہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ امام مہدی علیہ السلام چونکہ ایک جان گداز زمانہ میں پیدا ہوں گے اور انہیں بے شمار مشکلات کا سامنا ہوگا۔ اس لئے وہ پیش بہا اجر کے مستحق ہوں گے۔ آثار نبیﷺ کی اتباع کریں گے۔ اور آپ سے خطاصادر نہ ہوگا۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ فضائل جزیہ اس قابل نہیں کہ حقیقتہً امام موصوف کے لئے شیخین پر تفضل کا حق پیدا کردیں۔
حدیث کاد یفضل علیٰ بعض الانبیاء پر بحث
البتہ ابن ابی شیبہ کی ایک روایت میں امام موصوف کے متعلق یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں کا یفضل علیٰ بعض الانبیاء جن سے ثابت ہوتا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کارتبہ انبیاء سے قریب ہے۔ حتیٰ کہ بعض مبالغہ سے کام لینے والوں نے یہ رائے لگائی کہ آپ بعض انبیاء سے افضل ہیں اور اپنے معتقدفیہ مہدی کی نسبت یہ خیال کیا کہ اس کا درجہ انبیاء کے مساوی یا زیادہ ہے لیکن روایت مذکور کی رو سے ایسا حکم لگانا صحیح نہیں کیونکہ یہ محمد بن سیرین کا قول ہے۔ جب تک قطعاً معلوم نہ ہوجائے کہ یہ کلام مشکوٰۃ نبوت سے صادر ہوئی ہے تب تک حجت ناتمام ہے اور نیز اس کی اسناد پایہ صحت کو نہیں پہنچتی کہ مقام استدلال میں مفید ہوسکے اور ثالثاً کاد کے مشتقات کی نسبت یہ قاعدہ ہے کہ منفی مثبت کے معنے۱؎ دیتی ہیں اور مثبت منفی کے معنے۔ بناء علیہ کاد یفضل علی بعض الانبیاء کا یہ مطلب ہوگا ولکن لم یفضلجیسے وماکادوا یفعلون کا مدعا یہ ہے ولکن فعلواء پس نتیجہ بالکل صاف ہے کہ امام مہدی کو وہ شان حاصل نہیں جو انبیاء کو دیا گیا ہے حالانکہ وہ بروزی طور پر مثیل محمد ہیں۔ اگر بہ پیرایہ بروز نبوت میسر ہوسکتی تھی تو امام الزمان کو ہوتی جب وہ نبی نہیں تو معلوم ہوگیا کہ بروزی نبوت کوئی چیز نہیں۔
ان شواہد کے علاوہ کتب روایت میں ایسی بے شمار شہادتیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کے ساتھ اخلاقی مماثلت ووصفی مشابہت ممکن ہے۔ لیکن جو مشبہ بہ میں کمال ہوتا ہے وہ مشبہ میں نہیں پایا جاتا اور واقعات نے اس کی تصدیق یہاں تک کی ہے کہ یہ مسئلہ عین الیقین کو پہنچ چکا ہے البتہ مماثلت کے ماتحت نبوت حاصل نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ فیض وہبی ہے۔ حدیث
۱؎ مطابقتاً یا تضمناً مراد نہیں بلکہ التزاماً یعنی قرائن اور آثار سے ایسا نتیجہ پیدا ہوتا ہے۔ القان اور شرح مأتہ عامل میں اس مسئلہ پر ضروری بحث کی گئی ہے۔