ہے تو نبی لاحق کے زمانہ میں نبی سابق کو اپنی شریعت کو ترک کرکے نبی لاحق کی شریعت پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ چنانچہ آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتا تو اس کو بغیر میری شریعت کے عمل درآمد کرنا جائز نہ ہوتا اور اس ظہور کے انقلاب سے نبوت کے بطون میں جس کو قرب الٰہی اور عند اﷲ معزز ہونا لازم ہے، ہرگز تغیر نہیں آتا بلکہ ترقی ہوتی ہے۔ بشرطیکہ نبی متبوع نبی تابع سے اکمل ہو۔ کیا یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے پہلے آنحضرتﷺ کو بیت المقدس کی طرف متوجہ ہوکر نماز پڑھنے کی اجازت دی اور بعد میں جب بیت اﷲ کی طرف سجدہ کرنے کا حکم فرمایا تو آپﷺ کی نبوت ورسالت میں فرق آگیا یا آپﷺ اس قدر ومنزلت سے جو آپﷺ کو پہلے بارگاہ خداوندی میں حاصل تھی معزول کئے گئے۔ ہرگز نہیں۔ لیکن حصول نبوت اور نبی ہونے کے لئے یہ لازم اور ضروری ہے۱؎ کہ ایک بار مستقل طور پر صاحب بطون وصاحب ظہور ہوا۔ اگر کلکتہ کے علاقے کا لیفٹیننٹ گورنر لاہور کے لفٹنٹ کے علاقہ میں بغرض اصلاح آئے تو اس کو لیفٹیننٹ گورنر کہا جائے گا لیکن وہ اس عہدہ پر نہیں آیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر بالفرض آنحضرتﷺ کے بعد دنیا کے سارے پیغمبر آجائیں تو ’’خاتم النّبیین‘‘ کی مہر نہیں توڑ سکتے۔
مرزا قادیانی کا نبوت تشریعیہ کا مدعی ہونا
مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نبوت تشریعیہ کا مدعی ہے اور اس کے ثابت کرنے کے لے ہم ان کا ایک مکالمہ ووحی بطور نمونہ پیش کرتے ہیں۔ مکالمات الٰہیہ جو ’’براہین احمدیہ‘‘ میں شائع ہوچکے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ وحی ہے: ’’ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہر علی الدین کلہ‘‘ اس میں صاف طور پر اس عاجز کو رسول کرکے پکارا گیا ہے۔
(براہین احمدیہ ص۴۹۸، خزائن ج۱ ص۵۹۳)
یہ آیت ’’سورہ فتح‘‘ کے اخیر رکوع میں ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کرے۔‘‘ اس آیت میں نبی تشریعی کا بیان ہے جیسا کہ ’’بالہدیٰ ودین الحق‘‘ سے ظاہر ہے اور مرزا قادیانی کا یہ فقرہ کہ (اس میں صاف طور اس عاجز کو رسول کرکے پکارا گیا ہے) اس امر پر کھلی شہادت ہے کہ مرزا قادیانی نبوت تشریعیہ کے مدعی ہیں۔
۱؎ کما یدل علیہ قولہ تعالیٰ {کان الناس امۃ واحدۃ…الخ}