سید علامہ
سید علامہ نے شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے: ’’کون الرویاء الصالحۃ جزء من النّبوۃ حقیقت لا باس بہ ولا ینا فی ذلک انقراض النّبوۃ وذہابہا فان جزء لایکون ذلک الشیئ‘‘ یعنی یہ قول کہ رویاء صالحہ نبوت کا جزو ہے۔اگر حقیقت پر محمول کیا جائے تو کچھ مضائقہ نہیں اور نہ یہ کسی طرح ختم نبوت کے منافی ہے۔ کیونکہ یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ کسی چیز کا جزو بعینہ وہ شئی نہیں ہوتی۔
علامہ محمد طاہر
علامہ محمد طاہر نے مجممع البحار میں حدیث کی شرح اس طرح کی ہے: ’’الرویاء جزو من النبوۃ ای فی حق الانبیاء فانہم یوحون فی المنام وقیل الرویاء تاتی علیٰ وفق النبوۃ لانہا جزء وباق منہا وقیل ہی من الانبیاء ای انباء وصدق من اﷲ لا کذب فیہ ولا حرج فی الاخذ بظاہرہ فان اجزاء النّبوۃ لا یکون نبوۃ فلا ینافی حدیث ذہبت النّبوۃ‘‘ یعنی رویاء جزو نبوت ہے یہ فقرہ انبیاء کے حق میں حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ ان کی خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے کیونکہ انہیں خواب میں بھی وحی ہوتی ہے اور بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ یہ رویا کا حال نبوت سے ملتا جلتا ہے کیونکہ وہ اس کی جزو ہے اور مشبہ اور مشبہ بہ میں تغائر من وجہ اور اتحاد من وجہ پایا جاتا ہے۔ لہٰذا عینیت ثابت نہ ہوئی یا وہ خدا کی طرف سے سچی خبر دیا جانے کا نام ہے۔ جس میں کذب کو دخل نہیں اور اگر اس کلام کو ظاہری معنے پر محمول کیا جائے تو کچھ ہرج نہیں کیونکہ اجزاء نبوت بعینہ نبوت نہیں۔ لہٰذا جملہ ’’ذہبت النبوۃ‘‘ بالکل راست اور درست ہے اور الرویاء جزء من النّبوۃ اس کے منافی بھی نہیں۔ کیونکہ وجو د جزء اور کل میں تلازم نہیں پایا جاتا۔
اگر رویاء صادقہ نبوت ہے تو فاسق کو بھی نبی ماننا ہوگا
علامہ محی الدین نووی نے شرح مسلم میں تحریر فرمایا ہے کہ روایات اس بارے میں مختلف الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہیں جن میں رویاء کو نبوت کا بیالیسواں اور چھیالیسواں اور سترواں اور چالیسواں اور انچاسواں اور پچاسواں اور چوالیسواں اور چھبیسواں حصہ قرار دیا گیا ہے ان روایات کی تطبیق اس طرح ہوسکتی ہے: ’’فالمؤمن الصالح تکون رویاء جزئً من سۃ واربعین والفاسق جزء من سبعین جزئً‘‘ یعنی مومن کی رویاء صالحہ نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے اور