خطبہ امام حسنؓ
حافظ جی نے کسی جگہ حضرت امام حسن علیہ السلام وعلیٰ آبائہ السلام کے خطبہ کے کلمات دیکھ لئے لہٰذا بے سوچے سمجھے لکھ ڈالا تاکہ لوگ یہ سمجھ لیں کہ حیات مسیح کے ثبوت میں ایک حوالہ دے تو دیا۔ اگر ذرا عقل ہوتی، عربی زبان کا کچھ علم ہوتا تو سوچتے کہ امام حسنؓ نے حضرت علیؓ کی رحلت کا ذکر فرماتے ہوئے صرف تاریخ کی اہمیت دکھاتے ہوئے حضرت مسیح علیہ السلام کا ذکر فرمایا اور وہاں بھی اسی مسلمانوں کے عام اعتقاد کے مطابق حضرت علیؓ کے انتقال کی کیفیت کو قبض کے لفظ سے ظاہر کیا مگر حضرت مسیح علیہ السلام کے لئے وہ لفظ نہ استعمال کیا بلکہ عرج کہا۔ اگر دونوں کی کیفیت یکساں ہوتی تو ایک لفظ استعمال ہوتا۔ عیسیٰ علیہ السلام کے رفع وعروج کا مسئلہ صحابہ وتابعین سے لے کر آج تک ایسا مشہور چلا آرہا ہے کہ جہاں کہیں بھی کوئی بھی اس واقعہ کا کسی عنوان سے ذکر کرتا ہے اس مخصوص کیفیت عروج کی طرف کسی نہ کسی اندازے سے اشارہ کرہی دیتا ہے۔ وہی شان اس خطبہ کے کلمات میں بھی موجود ہے۔ حافظ جی نے حضرت ابن عباس ؓ کا نام لیا ہم نے ان کا عقیدہ پیش کیا اب امام حسن کا ذکر کیا۔ لیجئے اب حضرت امام حسنؓ کا عقیدہ بھی ملاحظہ کیجئے۔ امام حسن مجتبیٰؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: ’’کیف تہلک امۃ انا اولہا والمہدی وسطہا والمسیح اخرہا‘‘ وہ امت کیونکر ہلاک ہوسکتی ہے جس کا اول میں ہوں وسط امام مہدی ہیں اور آخر مسیح علیہ السلام۔ (مشکوٰۃ ص۵۸۳) یہاں یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ مہدی اور ہیں اور مسیح دوسرے یعنی وہی مسیح بن مریم، یہ مرزائیوں کا فریب ہے کہ مسیح ومہدی دونوں ایک ہی ہیں۔
عمر مسیح علیہ السلام
ثبوت موت مسیح میں جناب حافظ صاحب حجج الکرامہ کی ایک روایت پیش کرتے ہیں۔ (غالباً ان کے نزدیک یہ کتاب صحاح ستہ میں داخل ہوگی اس لئے کہ بقول ان کے صحیح حدیثیں تو فقط صحاح ستہ ہی میں ہیں) علمائے محققین نے اس قسم کی تمام حدیثوں کو جمع فرمایا جس میں حضرت مسیح کی عمر کا ذکر آیا اور جو فیصلہ مختلف احادیث میں تطبیق دینے سے کیا جاسکا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ۱۲۰ سال ان کی عمر شریف کی وہ پوری مدت ہے جو اس زمین پر انہوں نے گزاری اور گزاریں گے۔ مرزائیوں کی عام عادت ہے وہی مرض حافظ جی میں بھی کہ کہیں سے آدھا پائو جملہ