فانہ عمر‘‘ یہ مرزا قادیانی کے دعویٰ کا بکلی استحصال کررہا ہے۔ ہمیں مرزا قادیانی کی تحریرات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایسے دعاوی پیش کرنے کے عادی ہیں جو آنحضرتﷺ کے بالکل معارض اور قرآن وسنت کے مد مقابل ہوں۔
محدث کی وحی دخل شیطانی سے منزہ نہیں ہوتی
۲… آپ فرماتے ہیں کہ محدث کی وحی دخل شیطانی سے منزہ کی جاتی ہے جو یہ دعویٰ نہ صرف اہلسنت کے عقائد کیخلاف ہے بلکہ جملہ اہل اسلام کے معارض ہے۔ کتاب وسنت میں کوئی اشارہ بھی موجود نہیں جو عصمت وحی محدثین کا کفیل ہو۔ صحابہ کرام جو حضرت عمرؓ کی محدثیت کے معترف تھے مگر بہت سے مسائل میں ان سے اختلاف رکھتے تھے۔ آپ جنب کے لئے بحالت سفرومرض تیمم کو روا نہیں رکھتے تھے اور دیگر صحابہ تیمم کے قائل تھے۔ آپ متعۃ الحج کے معترف نہ تھے دوسرے صحابہ متعتہ الحج کے قائل تھے۔ اگر آپ کی وحی معصوم تھی تو صحابہ پر ان کا اتباع لازم ہوتا اور مخالفت ہر طرح ممنوع اور حرام ہوتی۔ حضرت عمر فاروقؓ نکاح میں گرانماید مہر مقرر کرنے کی ممانعت کرتے ہیں اور ایک عورت گوشہ سے کھڑی ہوکر بحوالہ قرآن آپ کے خیال کو مخالفت کرتی ہے اور کہتی ہے کہ خدا نے تو ہماری مہر گراں مایہ کی اجازت دی ہے اور ارشاد کیا ہے: ’’وان اردتم استبدال زوج مکان زوج وآتیتم احداہن قنطارا فلاتاخذوا منہ شیئاً اتاخذونہ بہتانا واثما مبینا (نسائ:۲۰)‘‘ تو حضرت عمرؓ لاجواب ہوجاتے ہیں اور فرماتے ہیں: ’’کل الناس افقہ منک یا عمرؓ‘‘ اور بالآخر اس عورت کے استنباط کو بنظر استحسان دیکھتے اور اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اب بھی کوئی شبہ باقی ہے کہ محدث معصوم الرائے نہیں ہوتا؟
محدث کا لفظ منسوخ ہوگیا ہے
یہی وجہ ہے کہ محدث کا ذکر ایک قرأۃ میں رسول اور نبی سے مقرون بیان کیا گیا ہے لیکن بعد ازاں اسے منسوخ کرکے ساقط کردیا گیا چنانچہ اب یہ لفظ آیۃ ’’وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی الا اذا تمنیٰ القیٰ الشیطان فی امنیتہ (حج:۵۲)‘‘ میں موجود نہیں تاکہ یہ سقوط اس امر پر دلیل ہوکہ محدث کا حکم نبی اور رسول سے متفاوت ہے اور جوقوم محدث کو نبی اور رسول کے مساوی سمجھتی ہے ان کا شبہ دور ہو: ’’وقرء ابن مسعود ولا نبی ولا محدث وعن سعد بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف مثلہ وزاد فنسخت محدث حاشیہ جامع البیان‘‘ یعنی ابن مسعودؓ نے نبی کے ساتھ محدث کا لفظ بھی پڑھا ہے