محاورہ عرب کے بالکل ہی خلاف ہے میں نے قرآن مجید کا زندہ محاورہ پیش کردیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محاورہ عرب میں درمیان کی جگہ وسط بولتے ہیں نہ کہ نصف ۔ تو پھر مرزاقادیانی کا یہ لکھنا کہ سورج اس کے گرہن کے دنوں میں سے اس دن گرہن ہوگا جو گرہن کا درمیانی دن ہے۔ کس قدر کھلی غلطی ہے۔
مرزاقادیانی اسلام کے آفتاب میں گرہن لگانا چاہتے ہیں مگر واﷲمتم نورہ ارشاد خدا وندی ہے۔ سرمو اس کے خلاف ہو نہیں سکتا اور اس سے بھی زیادہ جہالت کی بات یہ ہے کہ تنکسف الشمس فی النصف منہ میں منہ کی ضمیر مذکرصاف رمضان کی طرف پھرتی ہے اس ضمیر کو مرزا صاحب شمس کی طرف یامن ایام کسوف الشمس کی طرف یا خدا جانے کس طرف راجع فرماتے ہیں حدیث شریف میں سوائے رمضان کے اس ضمیر کا کوئی مرجع مذکور نہیں اور لطف تو یہ ہے کہ مرزا صاحب محاورہ عرب پر گفتگو کر رہے ہیں مگر اتنا بھی خیال نہیں رکھتے کہ نصف کا ترجمہ درمیان درست نہیں بلکہ یہ تو وسط کا ترجمہ ہے۔ عربی علم ادب میں مقابلی کا بہت کچھ خیال رہتاہے اور ظاہر کہ اول کا مقابل نصف ہے نہ کہ وسط۔
تیسری غلطی
مرزاقادیانی تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’ہر ایک عقلمند جس کو ذرہ انسانی عقل میں سے حصہ ہو سمجھ سکتا ہے کہ اس جگہ لم تکونا کا لفظ آیتیں سے متعلق ہے (ضمیہ انجام آتھم ص ۴۷ خزائن ج ۱۱ ص۳۳۱) مرزاقادیانی کے نزدیک ہر معمولی عقل و فہم و الا انسان قرآن اور احادیث کے مطلب کو سمجھ سکتا ہے اور وہ بھی اس درجہ پر سمجھ سکتا ہے کہ عربی عبارت کی ترکیب بھی بتلادے یعنی خود سمجھ جائے نیز اور وں کو سمجھا دے میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایک بڑے سے بڑا فلاسفر بھی جو تمامی زبان پر عبور رکھتاہو مگر عربی زبان دانی سے اس کے کان آشنا نہ ہوں۔وہ کیوں کر عربی عبارت کی تشریح کر سکتا ہے اور اس کی صحت وعدم صحت کو پرکھ سکتا ہے۔ عربی عبارت سمجھنے کے لئے علم کی ضرورت ہے نہ کہ معمولی عقل کی۔ یہ تو بالکل ہی طفلاً نہ تسلی ہے۔جب تو مرزاقادیانی کے ماننے والے اکثر نا قابل اور جاہل ہیں الا ماشاء اﷲجسے خدا نے علم عطا فرمایا ہے اور عربی زبان دانی سے واقف ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ صرف لم تکونا آیتیں سے متعلق نہیں بلکہ لم تکونا منذخلق السمٰوات والارضیہ پورا جملہ آیتیں سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی تشریح کرتا ہے ورنہ منذخلق السموٰات والارض کی پھر بیکار ضرورت ہی کیا تھی ۔ تمام دنیااس بات کو جانتی ہے اور خو