’’جب کہ مجھے اپنی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیساکہ توراۃ اور انجیل اور قرآن پر تو کیا انہیں مجھ سے یہ توقع ہوسکتی ہے کہ میں ان کی ظنیات بلکہ موضوعات کے ذخیرہ کو سن کر اپنے یقین کو چھوڑ دوں جس کی حق الیقین پر بنا ہے۔‘‘ (اربعین نمبر۴ص۱۹، خزائن ج۱۷ ص۴۵۴) اور حقیقت الوحی میں لکھا ہے: ’’اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب میں امت میں گزر چکے ہیں۔ ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس کے مستحق نہیں کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ ان میں پائی نہیں جاتی۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۹۱، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶)
ناظرین! بحوالہ ازالہ مرزا قادیانی کا بیان آپ پڑھ چکے ہیں کہ ایک فقرہ کا نزول بھی آنحضرت کے بعد منافی ختم نبوت ہے۔ اس کے ساتھ ان کے دوسرے بیانات کو ملاحظہ فرمائیں جن میں اپنی وحی کو کتب منزلہ کے مساوی بتلایا ہے۔ اور بیان کیا ہے کہ بارش کی طرح مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے تو ایک طرح گویا مرزا قادیانی کا اقرار ہے کہ میرا دعوائے آیت خاتم النّبیین کے مخالف ہے اور میں اس آیت کا منکر ہوں اور دیدہ دانستہ میں نے خاتم النّبیین کے مضمون کو توڑ دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ آپ حقیقی نبوت کے مدعی ہیں ورنہ آپ کی وحی قرآن اور انجیل اور تورات سے ہم پلہ کیونکر ہوسکتی تھی۔
تشریعی اور غیر تشریعی نبوت کے دونوں اقسام منقطع ہوچکی ہیں
آنحضرتﷺ بعزم تبوک پابرکاب تھے اور حضرت علیؓ کو بچوں اور بوڑھوں اور مستورات کی حفاظت کے لئے مدینہ میں اپنا جانشین بنایا حضرت علیؓ نے عذر کیا اتخلفنی فی النساء والصبیان یعنی یہ بات میرے لئے موجب عار ہے کہ آپ مجھے جرگہ نسواں وصبیان میں چھوڑتے