خدائی سرخی کی چھینٹیں
حافظ جی میں جب اتنا بھی علم نہیں کہ معمولی لفظوں کے معنی ہی سمجھ لیں تو الٰہیات کے اس مسئلہ کو کیا سمجھ سکتے ہیں کہ جسم سے پاک رب العالمین کے لئے دستخط کے واسطے ایسی سرخی کی احتیاج تجویز کرنے سے جس کی چھینٹیں کپڑوں پر نمودار ہوں، کیسا شرک لازم آتا ہے۔ اس کے جواب میں ہم سردست یہی کہیں گے کہ :
سخن شناس نئے دلبر اخطا ایں جاست۱؎
۱؎ افسوس! حافظ صاحب کو مرزا قادیانی کے اس قابل مضحکہ لغویت پر شرم نہ آئی اور باطل کی محبت میں انہوں نے یہ تسلیم کرلیا کہ خدا نے دستخط کے لئے قلم ہاتھ میں لیا اور سرخی کا ڈوبا لیا سرخی زیادہ آگئی تو اس کو چھڑکا اس سے چھینٹیں مرزا قادیانی کے کپڑوں پر آگئیں۔ (حقیقت الوحی ص۲۵۵، خزائن ج۲۲ ص۲۶۷) حافظ صاحب کی عقل کیا ہوئی اور مرزا کی محبت نے اس درجہ ان کے دماغ کو خراب کیا کہ انہیں شان الٰہی میں ایسی باطل بات بھی گوارہ ہوگئی جس کو زبان پر لانے کی کوئی کافر بھی جرأت نہ کرے گا۔ یہ خدا کی شان تو کیا ہوسکتی ہے۔ تمیز دار انسان بھی ایسا نہیں کرتا کہ قلم کو اس بے تمیزی سے چھڑکے کہ دوسرے کے کپڑوں پر چھینٹ آئیں۔ یہ خدا کے ساتھ تمسخر ہے۔ جس خدا کی یہ شان ہے اذا اراد شیئاً ان یقول لہ کن فیکون۔ جو سارے جہان کو کن کے امر سے موجود فرماوے وہ ایک دستخط کے لئے قلم سیاہی کاغذ کا محتاج ہو۔ احتیاج تو الوہیت اور شان واجب کے منافی ہے واﷲ غنی عن العلمین اس کے لئے ایسا امر ثابت کرنا جس سے احتیاج لازم آئے اس کی خدائی کا انکار اور کفر ہے۔ پھر قلم کے ہاتھ میں لینے کے لئے ایک ہاتھ اور جسمانیت بھی ماننا پڑے گی کہ مادیات کے ساتھ اقتران وتلبس تجرد بحث کے منافی ہے یہ دوسرا کفر ہوا۔ تیسرا کفر علم قدرت کا انکار ہے کہ اس کو خبر نہیں ایک دستخط کے لئے کتنی سیاہی درکار ہے اور یہ اختیار نہیں کہ جتنی درکار ہے۔ قلم میں اتنی ہی آئے بے اختیاری و بے علمی سے قلم دوات میں ڈالا اور اندھا دھند سیاہی بھرلی۔ بعد کو معلوم ہوا کہ یہ تو زیادہ ہے تو یہ قدرت نہ تھی، یہ قلم میں رکی رہتی اور حسب ضرورت کاغذ پر لگتی، اپنی اس مجبوری وبے اختیاری کی وجہ سے زیادہ سیاہی قلم سے نکالنا پڑی، مگر نکالنے کے لئے اتنی تمیز نہ تھی کہ دوات میں واپس کردی جاتی، نہ یہ سلیقہ تھا کہ دوات میں جھٹکادیا جاتا یا کسی اور طرف۔ جھٹکا بھی دیا تو ایسا کہ چھینٹیں مرزا قادیانی کے کپڑوں پر گریں۔ یہ شان الٰہی کے ساتھ تمسخر ہے اور کفریات سے لبریز۔ افسوس! مرزائیوں کی لوح قلب اس قدر مکدر ہوگئی کہ وہ ایسے بے ہودہ کفریات کو تسلیم کرتے ہیں اور حافظ صاحب کا یہ قول کہ مادی سیاہی پر کیا اعتراض ہے خدا نے اتنا بڑا جہان مادی پیدا کردیا اور زیادہ افسوس ناک جہالت ہے۔ کیا خدا نے جو کچھ پیدا کیا اس سب کا استعمال بھی اس کے لئے ثابت کرنا جائز، جو یہ اعتقاد ہے تو غذا کھانا، پینا، بیاہ کرنا، شادی بی بی بچے والا ہونا سب اس کے لئے ثابت کردو گے۔ ’’تعالیٰ اﷲ عما یتصور الظالمون علواً کبیرا‘‘ مادیات کا پیدا کرنا کہاں اور کہاں ان کا استعمال کرنے لگنا۔ اس عقل پر ہزار تف!