پس ’’شبہ لھم‘‘ کہہ کر دونوں گروہ کے خیالات کی تردید کردی: ’’وما قتلوہ وماصلبوہ‘‘ میں یہ بات جتلانا ہے کہ صلیب پرچڑھانے کا تو واقعہ ظہور میںآیا قتل واقع نہیں ہوا۔ پچھلا’’ماقتلوہ‘‘ تاکید کرتا ہے کہ وہ صلیب پر چڑھائے گئے مگر مرنے سے بچ گئے۔ لیکن اس واقعہ صلیب کی نفی ثابت نہیں ہوتی غرض اس سے یہودیوں کے خیال کا باطل کرنا تھا کہ نبی کاذب مقتول ہوتا ہے اور :’’رفعہ اﷲ الیہ‘‘ اس لئے بیان کیا کہ یہود کہا کرتے تھے کہ اس قسم کے مقتول کی روح شیطان کے پاس چلی جاتی ہے۔ اﷲ نے فرمایا کہ واقعہ صلیب کے بعد مسیح علیہ السلام کی روح میرے پاس چلی آئی تو اس سے رفع روحانی ثابت ہوتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک علودرجہ کاموجب ہے۔ چونکہ قرآن کو اہل کتاب کے خیالات فاسد کی تردید منظور تھی ۔ اس لئے لفظ لفظ سے ان کے خیالات کو باطل کیا :’’الی ھناتم کلام المرزائیۃ نقلاً من کتاب حقیقت الوحی وغیرہ!
الجواب … مرزائیوں کی دوسری دلیل کا جواب
اقول:جواب اس کا یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ صریحاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مع جسم کے اٹھا لئے گئے۔ اس آیت میں مرزائیوں کی تاویل کا میدان بالکل کوتاہ ہے۔ اس آیت سے اتنے امور ثابت ہوتے ہیں:(اولاً)… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقتول ومصلوب نہ ہونا۔(ثانیاً)… یہودیوں کو اس واقعہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کے قتل وشناخت کی بابت شبہ پیدا ہوجانا اوران کا شک میں پڑ جانا۔(ثالثاً)… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مع جسدکے آسمان پر اٹھا لیا جانا۔
مرزائیوں کو پہلے امر سے انکار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سولی چڑھائے گئے اور تین ساعت تک وہ اس پرآویزاں رہے ۔چونکہ سولی پر مرے تو نہیں بلکہ غش آگیاتھا۔ معالجہ کے بعد صحت پاکر یہودیوں سے چھپ کر رہنے لگے اورپھر ہندوستان کی طرف چلے آئے۔ مگر قرآن مجید سے یہ مطلب کسی طرح سے ثابت نہیں ہو سکتا جو قرآن پر ایمان رکھتا ہے۔ اس کو مسیح کا صلیب پر چڑھنا مقبول نہ ہوگا اورنہ ایسا کسی مسلمان کوعقیدہ ہوگا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب پر چڑھائے گئے۔ ان کا یہ کہنا کہ صلیب دیاجانا یہودیوں کے نزدیک طعن کا موجب تھا۔بالکل غلط اورلغو ہے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ انبیاء کا مقتول ہونا عار کا باعث نہیں ہے۔کیونکہ توریت کے زمانہ میں بھی اکثر انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام مقتول ہوئے ہیں۔بلکہ اس سے بھی بدتر طور پر انبیاء کو بنی اسرائیل نے قتل کیا ہے اوریوں تو یہودیوں کے طعن سے اب تک حضرت مسیح علیہ السلام سبکدوش