جو جیسا رہتا ہے اس پر ویسا ہی فیضان ہوتا ہے۔شعر
یاران کہ درلطافت طبعش خلاف نیست
درباغ لالہ رویدہ درشوربوم خس
الہامی تحقیق
ناظرین!اس کی شرح ملاحظہ کریں۔ حضرت مجدد ؒ پہلے مرشد کی حالت بیان کرتے ہیں کہ وہ کامل اور مکمل ہوتا ہے۔ یعنی مرتبہ فنا اوربقاء اسے حاصل ہوتا ہے۔ فنا فی اﷲ کاحاصل یہ ہے کہ بندہ اﷲ کی محبت میں اس قدرمحو ہوجاتا ہے کہ اسے اپنی خبر نہیں رہتی اورجس قدر اس بندے کی خواہشیں اور لذتیں ہوتی ہیں وہ سب فنا ہوجاتی ہیں اوراس کی خواہشیں وہی ہوتی ہیں جو پسندیدہ اﷲ اوراس کے مرضیات ہیں۔ اب یہ بندہ اپنی خواہشات سے علیحدہ ہوکر دوسرے قسم کی روحانی زندگی حاصل کرتا ہے۔ اسی کانام بقاہے ۔شیخ وقت اور مرشد کامل میں یہ صفت ایسی پختہ اورراسخ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنی ہمت اورتوجہ سے اپنے مریدمیں یہ حالت پیدا کرتا ہے۔مگرباذن خداوندی۔یہ صفت تو مرشد کامل کی حضرت مجددؒ نے بیان فرمائی۔اب مرید کی دوحالت بیان کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ اﷲ تعالیٰ سے اس کی جبلت میں ایسی استعداد اورقوت رکھی ہے کہ فیض روحانیت کو بلاتکلف قبول کرتا ہے اورمرشد کامل اورمکمل کاگویا بے اختیار مطیع وفرمانبردار ہوتا ہے اوراس کی روحانیت کے اثر کو قبول کرتا ہے۔جس طرح خس وخاشاک کہربا کے اثر کو قبول کرتا ہے اورجس مرید کی سرشت میں یہ خوبی نہیں رکھی گئی ہے ۔بلکہ اس کے خلاف باتیں اس میں ہیں۔ اب اس خلاف کے مراتب ہیں۔ ادنیٰ یہ ہے کہ ظاہری افعال میں اگرچہ نیک ہومگرروحانیت جس کانام ہے وہ نہیں ہے اوراس کا اعلیٰ مرتبہ شیطانیت ہے۔ایسے مرید کامل ومکمل کے فیض سے یعنی اس کی روحانیت سے محروم رہتے ہیں۔ یہاں سے دیکھنا چاہئے کہ حضرت مجددؒ نے پہلے مرشد کامل کی حالت بیان کی۔ اسے مولف القاء چھوڑ گئے کیونکہ اس سے قلعی کھلتی تھی کیونکہ جس طرح مرید کی حالتیں بیان کی گئیں ۔اسی طرح مرشد کی دوحالتیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ ہے جن کی صفت حضرت مجددؒ نے بیان فرمائی۔ دوسری وہ ہیں جن میں روحانیت کی جگہ شیطانیت ہے۔گوظاہر میں تقدس کادعویٰ ہو اوریہاں تک ان کا دماغ پہنچے کہ نبوت کادعویٰ کرنے لگیں۔دونوں اقسام کے مرشد گزرے اورگزر رہے ہیں۔ اب سچے کامل ومکمل اورجھوٹے مدعیوں میں تمیز کرنا نہایت مشکل ہے۔ حضرت