اور ایسی حدیثیں جن میں آپﷺ کو آخری نبی کہا گیا ہے چھ ہیں۔
اس قدر زبردست شہادت کے ہوتے ہوئے کسی مسلمان کا آنحضرتﷺ کے آخری نبی ہونے کا انکار کرنا بیّنات اور اصول دینی سے انکار ہے۔
لو عاش ابراہیم لکان نبیا پر بحث
اور ’’ختم نبوت‘‘ کے خلاف جو کچھ احادیث میں سمجھا گیا ہے وہ ابن ماجہ کی ایک حدیث ہے۔ ’’لو عاش ابراہیم لکان نبیا‘‘ مگر اول اس سے امکان نبوت نہیں نکلتا، بلکہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ’’لوکان فیہما الہۃ الا اﷲ لفسدتا‘‘ جس طرح یہاں دو خدائوں کا ہونا اورفساد دونوں ممتنع امر ہیں، اسی طرح وہاں ابراہیم کا زندہ رہنا اور اس کا نبی ہونا دونوں ممتنع ہیں۔ دوسرے اس حدیث کی سند میں ضعف ہے، کیونکہ اس میں ابوشیبہ ابراہیم ہے۔ جسے ضعیف کہا گیا ہے۔ تیسرے اس کی تشریح دوسرے اقوال سے ہوتی ہے۔ مثلاً بخاری میں عبداﷲ بن ابی اوفی کا قول: ’’لو قضی بعد محمدﷺ نبی عاش ابراہیم ولکن لا نبی بعدہ‘‘ یعنی اگر آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی مقدر ہوتا تو آپﷺ کا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا۔ لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ یا انسؓ کا قول: ’’ولو بقی لکان نبیا لکن لم یبق لان نبیکم آخر الانبیائ‘‘ یعنی اگر ابراہیم زندہ رہتا تو نبی ہوتا۔ لیکن وہ باقی نہیں رہا کیونکہ تمہارے نبی آخری نبی ہیں۔
حضرت عائشہؓ کا قول
’’قولوا خاتم النّبیین ولا تقولوا لا نبی بعدہ‘‘اور ’’ختم نبوت‘‘ کے خلاف ایک قول حضرت عائشہؓ ؓ کا پیش کیا جاتا ہے: ’’قولوا خاتم النّبیین ولا تقولوا لا نبی بعدہ‘‘ یعنی خاتم النّبیین کہو اور یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں اور اس کا یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے نزدیک ’’ختم النّبیین‘‘ کے معنی کچھ اور تھے۔ کاش وہ معنی بھی کہیں مذکور ہوتے، حضرت عائشہؓ کے اپنے قول میں ہوتے۔ کسی صحابی کے قول میں ہوتے۔ نبی کریمﷺ کی حدیث میں ہوتے۔ مگر وہ دربطن قائل ہیں اور اس قدر حدیثوں کی شہادت جن میں ’’خاتم النّبیین‘‘ کے معنی ’’لا نبی بعدی‘‘ کئے گئے ہیں۔ ایک بے سند قول پر پس پشت پھینکی جاتی ہے۔ یہ غرض پرستی ہے۔ خدا پرستی نہیں کہ رسول اﷲﷺ کی تیس حدیثوں کی شہادت ایک بے