بیان کیا جس سے مقصود اصلی فوت ہوتاہے اور نعوذ بااﷲ قرآن شریف فصیح دبلیغ نہیں۔
وبرتقدیر ثانی آیت موخر الذکر کا ترجمہ یہ ہوگا کہ اے کملی اوڑھنے والے تورات کو کھڑا ہو کر مگر تھوڑا۔ ٹھیک دوپہررات یا اس سے کچھ کم کر یا زیادہ یعنی ساڑھے گیارہ بجے رات سے ساڑھے بارہ بجے تک تو رات کو قیام کر سکتا ہے۔ اور یہ ہر گز مقصود خداوندی اور عنوان بیان قرآن نہیں۔حضرت رسول مقبول ﷺ رات رات بھر جاگتے تھے اور اتناقیام فرماتے تھے کہ آپ کا قدم مبارک ورم کرجاتا تھا حتی ورمت قدماہ۔حدیث نبویؐ میں مذکور ہے خدا نے آپﷺ کی اس قدر ریاضت دیکھ کر اپنے محبوب سے فرمایا کہ تورات کو اس قدر مت قیام فرما رات نیند اور سکھ اور دن بھر کی تھکان رفع کرنے کے لئے بنائی گئی۔ اس میں اس قدرشاقہ محنت نہ کرنی چاہئے۔ جس سے جسمانی صحت جاتی رہے اور ترک فرائض بھی لازم آئے پس آدھی رات یا کچھ کم و بیش تک قیام کرنا کافی وافی ہے اور چونکہ آپ اولو الزم نبی اور مفتخرد مقتدیٰ بنی آدم تھے صحابہ آپ کے شیدائی تھے قدم بقدم آپ کی اتباع کو فرض تصور کرتے اﷲ تعالی نے آپ کورحمتہ للعٰلمین کا لقب عطا فرمایا ہے اور یہ لقب بالکل ہی حقیقت اور صداقت پر مبنی ہے اس لئے اپنے حبیب کے طرز عمل سے یہ بات ظاہر کردی کہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے عبادت نافلہ کو ایک انداز سے ادا کرنا چاہئے۔
معزز ناظرین! اب آپ ہی انصاف فرمائیں کہ محاورہ عرب سے نابلد مرزا غلام احمدقادیانی تھے یا علماء اہل حق ہیں؟مرزاقادیانی اپنی کج فہمی سے کج بحثی میں کچھ اس قدر الجھتے ہیں اور وہ باتیں تحریر کرجاتے ہیں جو خدا کے مقدس اور پاک ارشاد کے خلاف ہوتا ہے مگر بندہ خدا کے سر پر جوں تک نہیںرینگتی ہے۔ ینکسف القمر لاوّل لیلۃکا ترجمہ تیرہویں رات بالکل ہی غلط ہے حدیث کے لفظ سے یہ ترجمہ مطابقت نہیں رکھتا۔بلکہ سراسر اس کے خلاف ہے مراتب قمر پر بھی اگر لحاظ کیا جائے تو بھی یہ ترجمہ غلط ہے کونکہ محاورہ عرب میں مطلقاً قمر کا اطلاق اس کے پورے دورہ اور پورے ماہ پر ہوتا ہے ہاں مراتباً ابتدائی دور راتوں کے قمر کو ہلال چودھویں کے قمر کو بدر اور ۲۷۔۲۸۔۲۹ کے قمر کو محاق بولتے ہیں۔ اس مراتب پر خیال کرکے زیادہ سے زیادہ تیسری رات ترجمہ کر سکتے ہیں۔ تیرھویں رات تو درمیانی رات ہے۔اگر حدیث میں مدنظر تیرھویں رات کا اظہار ہوتا تو لاول لیلۃ کی جگہ لیلۃ الوسطٰی ہوتا۔ یہ کیسی فاش غلطی ہے۔
دوسری غلطی
وتنکسف الشمس فی النصف منہسے کسوف شمس کا نصف مراد لینا