بعلوم دینیہ ظاہرہ وباطنہ وناصر سنت وقامع بدعت بود‘‘{یعنی مجدد کے لئے ضروری ہے کہ وہ علوم دینیہ ظاہرہ وباطنہ کا عالم اور سنت کا مددگار اور بدعت کو دور کرنے والا ہو۔ } (حجج الکرامہ ص۱۳۳)
کہنے کو تو مرزا قادیانی بھی کہتے ہیں کہ ’’میں مجدد ہوں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۸، خزائن ج۳ ص۱۷۹) مگر صرف زبانی دعویٰ کوئی وقعت نہیں رکھتا تا وقتیکہ کوئی کام کرکے نہ دکھایا جائے۔ ہم نے جہاں تک مرزا قادیانی کی تعلیمات اور تصنیفات کو دیکھا ان میں احیائے سنت اور اماتت بدعت کا نام ونشان نہیں پایا۔ ہاں اپنی امامت، مجددیت، مہدویت، عیسویت، نبوت، اور الوہیت کا جابجا راگ گایا ہے جو مرزائیوں کے سوا اہل علم اور طالبان حق کی نظر میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ کیونکہ اس سے دین کو کوئی تقویت نہیں پہنچی بلکہ رخنہ اندازی اور تفرقہ بازی پیدا ہوئی ہے۔
اگر مرزائی صاحبان ضد اور تعصب سے علیحدہ ہوکر منصفانہ طور پر غور کریں تو یقینا وہ اسی نتیجہ پر نکلیں گے۔ لیکن اگر کسی مرزائی کو مرزا قادیانی کی حسن عقیدت کی بناء پر ہماری تحریر غلط معلوم ہوتو وہ مرزا قادیانی کی کوئی ایسی کتاب پیش کرے جو ان کے دعاوی کے بغیر محض دینی علوم پر مشتمل ہو۔ جس سے سنت کی تائید اور بدعت کی تردید کی گئی ہو تو ہم اپنی تحریر واپس لے لیں گے اور اس شخص کو انعام دیں گے۔
یا دوسری صورت میں گزشتہ تیرہ سوسال کے مجددین میں سے چند مجددوں کی ایسی تصانیف پیش کرے یا ان کا نام بتا دے جس میں انہوں نے مرزا قادیانی کی طرح اپنی ہی بڑائی کا اظہار کیا ہو اور انبیاء کی توہین کرنے کے علاوہ اپنے منکرین کو کافر، دجال، حرام زادے، ذریۃ البغایا وغیرہ ناجائز اور نامناسب الفاظ سے مخاطب کیا ہو تو بھی ہم انعام دینے کو تیار ہیں۔
اور اگر مرزائی یہ دونوں کام نہ کرسکیں اور انشاء اللہ تعالیٰ ہرگز نہ کرسکیں گے۔ ’’ولو کان بعضہم لبعض ظہیرا‘‘ تو خدا تعالیٰ کے خوف اور عاقبت کے فکر سے مرزائیت کو ترک کرکے جناب سرور کائنات وفخر موجوداتﷺ کا دامن پکڑیں۔ تاکہ انجام بخیر ہو۔
من آنچہ شرط بلاغ است باتومیگوئم
تو خواہ ازاں پند گیر خواہ ملال
سوال ہشتم… حضرت مسیح موعود کو مجدد ماننے سے آپ کے خیال میں ایمان پر کیا زد پڑتی ہے؟