اس حدیث سے یہ تو ثابت ہے کہ اس امت میں مجدد پیدا ہوں گے۔ مگر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کے لئے دعویٰ کرنابھی ضروری ہے۔ اور ان کا انکار کفر ہے۔ بلکہ مجدد کو بلا دعویٰ خاموشی کے ساتھ اپنا کام کرنا چاہئے۔ یہاں تک کہ لوگ خود بخود اس کے مجدد ہونے کا انکار نہ کریں چنانچہ: ’’حجج الکرامہ‘‘ میں ہے: ’’ومعلوم نمی شودا این مجدد بغلبہ ظن معاصرین دلے ازااہل علم وبقرائن واحوال وانتفاع بعلم او‘‘ یعنی معلوم نہ ہو کہ یہ مجدد ہے۔ مگر اس کے زمانہ کے علماء اور قرائن اور احوال اور اس کے علم سے نفع پہنچنے سے (اس کے مجدد ہونے کا) گمان کریں۔ (حجج الکرامہ ص۱۳۳)
نیز حدیث میں من کا لفظ عام ہے۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ جو شخص بھی دین کو تازہ کرے گا۔ وہ ہی مجدد ہے۔ اس میں کسی زید بکر کی تخصیص نہیں۔ چنانچہ حجج الکرامہ، ص۱۳۴ میں مزید ہے۔ ’’پس ہر عالم دیندار خدا پرست وہر امیر عادل حق دولت کہ احیائے سنن واماتت بدع فرماید ومردم را بسوئے عمل کتاب عزیز وسنت مطہرہ کشد از تمسک محدثات وتعامل منکرات وبدعات باز دارد خدا تعالیٰ بردست او دلہائے مردہ را زندہ کند وگوشہائے کورا شنواد وچشمہائے کور را بینا سازد وطریقۂ مرضیہ سلف صلحاء آئمہ ہدی را رواج رونق بخشد وے مجدد دیں نبوی ومحی سنت مصطفوی است‘‘ {یعنی ہر ایک دین دار خدا پرست عالم اور ہر ایک عادل حق دوست امیر جو سنت کو زندہ اور بدعت کو مردہ کرے اور لوگوں کو کتاب اللہ وسنت رسول اﷲ پر عمل کرنے کی طرف کھینچے اور نئی باتوں کو پکڑنے اور نئی باتوں پر عمل کرنے سے منع کرے اور خدا تعالیٰ اس کے ہاتھ پر مردہ دلوں کو زندہ کرے اور بہرے کانوں کو سننے والے اور اندھی آنکھوں کو دیکھنے والی بنائے اور اگلے بزرگوں اور اماموں کے طریقوں کو رواج اور رونق بخشے وہ دین نبوی کا مجدد اور سنت مصطفوی کا زندہ کرنے والا ہے۔}
نیز من کا لفظ واحد کے لئے بھی آتا ہے اور جمع کے لئے بھی اس لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ مجدد صرف ایک ہی ہو بلکہ ایک وقت میں اور ایک ہی ملک میں بہت سے مجدد ہوسکتے ہیں اور یہ مرزائیوں کو بھی تسلیم ہے۔ (ملاحظہ ہو عسل مصفی جلد اول ص۱۵۶)
حاصل کلام: امام کی طرح مجدد کے لئے بھی نہ کسی دعویٰ کی ضرورت ہے اور نہ اظہار کی ضرورت بلکہ اس کے علوم ظاہری وباطنی میں کامل ومکمل ہونے اور جامۂ سنت وقامع بدعت ہونے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ نواب صاحب موصوف لکھتے ہیں: ’’ولا بداست کہ عالم باشد