اس امامت (نبوت) کا دعویٰ کرے تو ہ جھوٹا ہے۔
دوم… امامت عام جس کو امامت صغریٰ بھی کہتے ہیں۔ یہ اس امت مرحومہ میں جاری ہے جو خدا تعالیٰ کے نیک بندوں کو عطا ہوتی ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں ہے: ’’والذین یقولو ن ربنا ہب لنا من ازواجنا وذریاتنا قرۃ اعین واجعلنا للمتقین اماماً (فرقان:۷۴)‘‘ {اور وہ جو کہتے ہیں : اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں سے اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔}
اس امامت میں نہ کسی دعویٰ کی ضرورت ہے اور نہ کچھ بننے کی حاجت نہ یہ رکن ایمان ہے اور نہ اس کا انکار کفر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت میں اگرچہ بہت سے امام ہوگزرے ہیں مگر نہ کسی نے امامت کا دعویٰ کیا ہے اور نہ اپنے انکار کی وجہ سے کسی کو کافر کہا ہے۔ لوگوں نے خود بخودبخود ان کی اسلامی کار گزاری اور دینی خدمات سے متأثر ہوکر اور ان میں امامت کے آثار پاکر ان کو امام تسلیم کیا ہے اور ان کی پیروی اور تابعداری کو اپنا فرض سمجھا ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ حضرت امام مہدی بھی خود بخود اپنی امامت ومہدویت کا دعویٰ نہیں کریں گے بلکہ لوگ خود انہیں تلاش کرکے ان کی جبراً وکرہاً بیعت کریں گے۔ چنانچہ کتابوں میں قیامت کی علامتوں کے عنوان سے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’بقیہ السلف مسلمان مدینہ منورہ چلے آئیں گے۔ عیسائیوں کی حکومت خیبر تک جو مدینہ منورہ سے قریب ہے۔ ) پہنچ جائے گی اس وقت مسلمان اس تجسس میں ہوں گے کہ حضرت امام مہدی کو تلاش کرنا چاہئے تاکہ ان کے مصائب کے دفعیہ کا موجب ہوں اور دشمن کے پنجہ سے نجات دلائیں۔ حضرت امام مہدی اس وقت مدینہ منورہ میں تشریف فرما ہوں گے۔ مگر اس بات کے ڈر سے کہ مبادا لوگ مجھ جیسے ضعیف کو اس عظیم الشان کام کی انجام دہی کی تکلیف دیں مکہ معظمہ چلے آئیں گے۔ اس زمانہ کے اولیاء کرام وابدال عظام آپ کو تلاش کریں گے۔ بعض آدمی مہدویت کے جھوٹے دعوے کریں گے۔ اور اس اثناء میں کہ مہدی رکن ومقام ابراہیم کے درمیان خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوں گے۔ آدمیوں کی ایک جماعت آپ کو پہچان لے گی اور جبراً وکرہاً آپ سے بیعت کر لے گی۔‘‘ (علامات قیامت ص۵)
اصل حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ’’عن ام سلمۃ عن النّبیﷺ قال اختلاف عند موت خلیفۃ فیخرج رجل من اہل المدینۃ ہارباً الیٰ مکۃ فیاتیہ ناس من اہل مکۃ فیخرجونہ وہو کارہ فیبایعونہ بین الرکن والمقام…الخ‘‘
(مشکوٰۃ باب اشراط الساعۃ، فصل دوم)