ضروری معلوم ہوتا ہے کہ امام اور مجدد کسے کہتے ہیں؟ پس جاننا چاہئے کہ:
امام کی تعریف… امام کی تعریف یہ ہے: ’’الامام الموتم بہ انساناً کانا یقتدی بقولہ او فعلہ او کتابا‘‘ (مفردات امام راغب مطبوعہ مصر۲۲)
{(از مولوی محمد علی صاحب) امام وہ ہے جس کی پیروی کی جائے خواہ انسان ہو۔ جس کے قول یا فعل کی پیروی ہو، یا کتاب۔ (بیان القرآن ج۱ ص۱۱۴ نوٹ ۱۵۵) امام کی جمع آئمہ ہے۔}
اس تعریف سے معلوم ہوا کہ امام کی دو صورتیں ہیں۔ امام بصورت انسان اور امام بصورت کتاب۔ امام بصورت انسان کی دو قسمیں ہیں۔ امام حق اور امام باطل امام حق وہ ہیں جو نیکی کی ہدایت کرتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:’’وجعلناہم ائمۃ یہدون باامرنا واوحینا الیہم فعل الخیرات واقام الصلاۃ وایتاء الزکاۃ وکانوا لنا عابدین (انبیائ:۷۳)‘‘ اور ہم نے انہیں امام بنایا وہ ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کی طرف نیک کام کرنے کی اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کی وحی کی اور وہ ہماری عبادت کرنے والے تھے۔‘‘
امام باطل وہ ہیں جو گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں جیسا کہ اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا: ’’وجعلناہم ائمۃ یدعون الی النار ویوم القیامۃ لا ینصرون (قصص:۴۱)‘‘ {اور ہم نے انہیں امام بنایا جو آگ کی طرف بلاتے ہیں اور قیامت کے دن انہیں مدد نہیں دی جائے گی۔ }
امامت کی پھر دو قسمیں ہیں۔
۱… امامت خاص اور
۲… امامت عام
اوّل… امامت خاص جسے امامت کبریٰ بھی کہتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کو عطاء کی گئی جیسا کہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فرمایا تھا: ’’انی جاعلک للناس اماماً (بقرۂ:۱۲۴)‘‘ یعنی ’’میں ضرور تجھے لوگوں کے لئے امام بنانے والا ہوں۔‘‘
اس امامت کے لئے دعویٰ کی بھی ضرورت ہے اور اس کا ماننا بھی فرض ہے۔ کیونکہ یہ امامت دراصل نبوت ہی ہے اور نبوت پر ایمان لانا فرض اور اس کا انکار کرنا کفر ہے۔ مگر چونکہ جناب رسول اﷲﷺ خاتم النّبیین ہیں۔ آپ کے ساتھ ہر قسم کی نبوت اور رسالت ختم ہوچکی ہے۔ اس لئے اب نہ امامت کبریٰ کا وجود باقی ہے اور نہ اس کے دعویٰ کی گنجائش ہے بلکہ اب اگر کوئی