{حضرت ام سلمہ نے جناب رسول اﷲﷺ سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا: خلیفہ (بادشاہ وقت) کے مرنے سے اختلاف واقع ہوگا پس اہل مدینہ سے ایک آدمی (امام مہدی) نکلے گا جو مکہ کی طرف بھاگنے والا ہوگا پس اہل مکہ سے لوگ اس کے پاس آئیں گے اور اس کو (امامت وخلافت کیلئے) مقرر کریں گے اور وہ مجبور ہوگا پس لوگ حجراسود اور مقام ابراہیم کے درمیان اس کی بیعت کریں گے۔ }
پس معلوم ہوا کہ اس امامت کے لئے کسی دعویٰ کی ضرورت نہیں ہے اور جو دعویٰ کرتا ہے وہ لالچ میں مبتلا ہے اور غلطی کرتا ہے۔ اکثر علمائے کرام وفضلائے عظام جو مسجدوں میں امام اور مقتدائے امام ہیں اور موجب ہدایت عوام ہر صبح وشام ہیں۔ امامت کے اس شعبہ سے فائز المرام ہیں جو دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ (فالحمدﷲ علی ذلک)
رہا بصورت کتاب امام ہونا۔ سو پہلے تو تو رات امام تھی۔ جیسا کہ خداوند کریم نے ارشاد فرمایا ہے: ’’ومن قبلہ کتب موسیٰ اماماً ورحمۃً (ھود:۱۸، احقاف:۱۲)‘‘
ترجمہ: اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب امام ورحمت تھی۔
لیکن اب قرآن شریف امام ہے: ’’وننزل من القرآن ما ہو شفاء ورحمۃً للمؤمنین (بنی اسرائیل:۸۲)‘‘
جس طرح امامت کبریٰ میں انبیاء علیہم السلام شامل ہیں اسی طرح یہ کتابیں بھی شامل ہیں اور جس طرح انبیاء پر ایمان لانا فرض اور ان کا انکار کفر ہے اسی طرح ان کتابوں پر ایمان لانا فرض اور ان کا نہ ماننا کفر ہے۔ مگر جس طرح آنحضرتﷺ خاتم الانبیاء ہیں اس طرح قرآن مجید خاتم الکتاب السماوی ہے۔
اب حدیث کا مطلب سنو حضور نے ارشاد فرمایا ہے: ’’من لم یعرف امام زمانہ فقد مات میتۃ الجاہلیۃ‘‘ یعنی جس شخص نے اپنے زمانہ کے امام کو نہ پہچانا اور مرگیا وہ جاہلیت کی موت مرا۔ یہ ارشاد نہایت بجا اور درست ہے۔
اس کی پہلی صورت یہ ہے کہ امامت کبریٰ کے لحاظ سے ہمارے لئے امام زمانہ بصورت انسان آنحضرتﷺ ہیں اور بصورت کتاب قرآن مجید جیسا کہ پہلے ثابت ہوچکا ہے اور ان کی امامت کا زمانہ قیامت تک وسیع ہے پس جس شخص نے ان کو نہ پہچانا اور ان کی پیروی نہ کی اور مرگیا تو بے شک وہ جہالت کی موت مرا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ امامت صغریٰ کے لحاظ سے اما مان حق پہلے بھی بہت سے