سڑکوں کو خس وخاشاک سے صاف کردیں گے اور کج ناراست کا نام ونشان نہ رہے گا۔ اور جلال الٰہی گمراہی کے تخم کو اپنی تجلی قہری سے نیست ونابود کردے گا۔
(براہین احمدیہ ج۳ ص۵۰۵ حاشیہ، خزائن ج۱ ص۶۰۲ حاشیہ)
اب ان حوالوں کے بعد دوسرا کوئی ثبوت بہم پہنچانے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی جبکہ مرزا قادیانی خود تسلیم کرچکے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے اور تمام راہوں اور سڑکوں خس وخاشاک سے صاف کردیں گے۔ مگر ممکن ہے کہ کوئی منچلا مرزائی یہ کہہ دے کہ مرزا قادیانی نے اس عقیدہ سے رجوع کرلیا تھا۔ جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں: ’’میں نے براہین میں جو کچھ مسیح ابن مریم کے دوبارہ دنیا میں آنے کا ذکر لکھا ہے وہ صرف ایک مشہور عقیدہ کے لحاظ سے ہے جس کی طرف آج کل ہمارے مسلمان بھائیوں کے خیالات جھکے ہوئے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۸۳، خزائن ج۳ ص۱۹۶)
سو اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ مرزا قادیانی کا یہی بیان ان کے اسلامی عقیدہ کو چھوڑنے اور نئے مذہب کی بنیاد رکھنے پر دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ وہ خود اس کی تصریح مندرجہ ذیل الفاظ میں کرتے ہیں۔ ’’یہ بیان جو براہین میں درج ہوچکا ہے۔ صرف اس سرسری پیروی کی وجہ سے ہے جو ملہم کو قبل از انکشاف اصل حقیقت اپنے نبی کے آثار مرویہ کے لحاظ سے لازم ہے۔ کیونکہ جو لوگ خدا تعالیٰ سے الہام پاتے ہیں وہ بغیر بلائے نہیں بولتے اور بغیر سمجھائے نہیں سمجھتے اور بغیر فرمائے کوئی دعویٰ نہیں کرتے اور اپنی طرف سے کوئی دلیری نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے ہمارے نبیﷺ پر جب تک خدا تعالیٰ کی طرف بعض عبادات کے ادا کرنے کے بارے میں وحی نازل نہیں ہوتی تھی، تب تک اہل کتاب کی سنن دینیہ پر قدم مارنا بہتر جانتے تھے اور بروقت نزول وحی اور دریافت اصل حقیقت کے اس کو چھوڑ دیتے تھے۔ سو اسی لحاظ سے حضرت مسیح ابن مریم کی نسبت اپنی طرف سے کوئی بحث نہیں کی گئی تھی۔ اب جو خداتعالیٰ نے حقیقت امر کو اس عاجز پر ظاہر فرمایا تو عام طور پر اس کا اعلان از بس ضروری تھا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۸۳، خزائن ج۳ص۱۹۷ )
اس عبارت سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوتے ہیں:
۱… حضرت مسیح علیہ السلام کا دوبارہ آنے کا عقیدہ جو براہین میں مرزا قادیانی نے لکھا تھا وہ اپنے نبی کے آثار مرویہ کے لحاظ سے تھا۔
۲… حضرت مسیح علیہ السلام کا دوبارہ تشریف لانا آثار نبویہ سے ثابت ہے۔
۳… جس طرح حضورﷺ نے اپنے مولاکریم سے وحی پاکر اپنے پہلے انبیاء کی سنت کو چھوڑ