دیتے تھے۔ اسی طرح مرزا قادیانی نے اپنے رب ’’عاج۱؎‘‘ سے الہام پاکر حضورﷺ کے فرمائے ہوئے عقائد کو چھوڑ دیا۔ بس جھگڑا ہی ختم۔ حیرانگی کی بات ہے کہ مرزائی کس منہ سے کہا کرتے ہیں کہ مرزا قادیانی کوئی نئی شریعت نہیں لائے۔ اگلی شریعت میں انہوں نے کوئی کمی بیشی نہیں کی۔
دوسرا جواب… یہ ہے کہ مرزا قادیانی کا یہ لکھنا کہ براہین میں جو کچھ آنجناب نے لکھا ہے وہ قرآن شریف کی آیات سے استدلال کرکے لکھا ہے اور ازالہ میں جو کچھ لکھا ہے۔ وہ صرف زبانی جمع خرچ ہے۔ اب قرآن مجید کی آیت کو ’’مشہور عقیدہ‘‘ کہہ کر ترک کرنا اور اپنے اوہام باطلہ پر عمل کرنا مرزا قادیانی کی ہی شان ہے۔ مسلمان تو کوئی اسے تسلیم نہیں کرسکتا۔
تیسرا جواب… یہ ہے کہ مرزا قادیانی کا براہین کے مضامین کو سرسری کہنا بھی محض دھوکا ہے۔ جس سے ناواقفوں کی نظر میں خاک جھونکنا مطلوب ہے۔ یا ’’دروغ گو را حافظہ نباشد‘‘ کا معاملہ ہے کیونکہ ’’براہین احمدیہ‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جس کی صحت اور صداقت کے متعلق مرزا قادیانی کو بڑا ناز تھا اور اس کی نسبت وہ بہت کچھ لکھ چکے ہیں چنانچہ:
۱… سب سے اول انہوں نے اشتہار انعامی دس ہزار شائع کیا۔ جس کا ملخص ابتدائی سطور میں یوں ہے۔ ’’انعامی دس ہزار روپیہ ان سب لوگوں کے لئے جو مشارکت اپنی کتاب کی فرقان مجید سے ان دلائل اور براہین حقانیہ میں جو فرقان مجید سے ہم نے لکھی ثابت کر دکھائیں یا اگر کتاب الہامی کی ان دلائل کے پیش کرنے سے قطعاً عاجز ہونے کا اپنی کتاب میں اقرار کرکے ہمارے ہی دلائل کو نمبروار توڑ دیں ۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۱۷، خزائن ج۱ ص۴۴)
۲… لکھتے ہیں۔ ’’کہ اس کتاب میں وہ تمام صداقتیں مرقوم ہیں۔ جن پر اصول علم دین کے مشتمل ہیں اور وہ تمام حقائق عالیہ کہ جن کی ہیئت اجتماعی کا نام اسلام ہے۔ وہ سب اس میں مرقوم ہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ ص۱۳۶، خزائن ج۱ ص۱۲۹)
۳… لکھتے ہیں ’’کہ یہ کتاب قرآن شریف کے دقائق اور حقائق اور اس کے اسرار عالیہ اور اس کے علم حکمیہ اور اس کے اعلیٰ فلسفہ ظاہر کرنے کے لئے ایک عالی بیان تفسیر ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۱۳۷، خزائن ج۱ ص۱۳۰)
۴… لکھتے ہیں: ’’جناب خاتم الانبیائﷺ کو خواب میں دیکھا اور اس وقت اس عاجز کے ہاتھ میں ایک دینی کتاب تھی کہ جو خود اس عاجز کی تالیف معلوم ہوتی تھی۔ آنحضرتﷺ نے اس
۱؎ مرزا قادیانی لکھتے ہیں: ربنا عاج اور اس کا ترجمہ ’’ہمارا رب عاجی ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۵۵۵، ۵۵۶ حاشیہ در حاشیہ، خزائن ج۱ ص۶۶۳)