۱… ’’اخرج الفریابی وسعید بن منصور ومسدود وعبد بن حمید وابن ابی حاتم والطبرانی من طرق عن ابن عباسؓ فی قولہ {وانہ لعلم للساعۃ} قال خروج عیسیٰ قبل یوم القیامۃ‘‘ {حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے۔ آپ نے کہا: (وانہ لعلم للساعۃ) کا مطلب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قیامت سے پہلے خروج ہے۔ } (درمنثور ج۶ ص۲۱)
۲… ’’واخرج عبد بن حمید وابن جریر عن مجاہدؓ {وانہ لعلم للساعۃ} قال ایۃ للساعۃ خروج عیسیٰ بن مریم قبل یوم القیامۃ‘‘ {مجاہد نے (وانہ لعلم للساعۃ) کی یہ تفسیر کی ہے۔ کہا قیامت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم کا خروج قیامت کی نشانی ہے۔} (درمنثور ج۶ ص۲۰ سطر ۳۲)
۳… ’’عبد بن حمید وابن جریر عن الحسن (وانہ لعلم للساعۃ) قال نزول عیسیٰ‘‘ {حضرت حسنؓ سے روایت ہے کہ اس آیت سے مراد نزول عیسیٰ ہے۔}
(درمنثور، حوالہ مذکور سطر۲۳)
۴… ’’واخرج عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن جریر عن قتادہ {وانہ لعلم للساعۃ} قال نزول عیسیٰ علم الساعۃ‘‘ {حضرت قتادہؓ سے روایت ہے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے لئے نشانی ہے۔} (درمنثور ج۶ ص۲۱ سطر ۳۴)
اس قسم کی اور بھی بہت روایات ہیں مگر ’’مشت از خروارے‘‘ اس قدر کافی ہیں۔ شکر ہے کہ مولوی محمد علی صاحب اس آیت پر کوئی خاص اعتراض نہیں کرسکے۔ بلکہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’’انہ‘‘ میں ضمیر حضرت ابن عباس اور بعض مفسرین کے نزدیک ابن مریم کی طرف جاتی ہے۔ ’’اور‘‘ حضرت عیسیٰ کو ساعت کے لئے نشان تو کہا جاسکتا ہے خواہ نزول عیسیٰ ہی مراد ہو۔‘‘ مگر آخر کار اپنی عادت سے مجبور ہوکر جوش تحریر میں نوک قلم کا ایک کچوکا لگا ہی گئے کہ ’’قیامت کے نشانوں میں اگر ہے تو نزول عیسیٰ ہے نہ خود عیسیٰ۔ مگر یہاں ذکر نزول عیسیٰ کا نہیں بلکہ عیسیٰ کا ہے۔ ہم قرآن شریف میں اپنی طرف سے یہ نہیں بڑھا سکتے۔ کہ عیسیٰ سے مراد نزول عیسیٰ سے لیں۔
(بیان القرآن، ج۳ ص۱۶۸۶)
کسی نے سچ کہا ہے ؎
نیش کژدم نہ از پئے کین است
مقتضائے طبیعتش ایں است